محرم میں کالے کپڑوں کی فروخت: کاروبار یا مجبوری؟

خریداری کے لیے آئی ہوئی ایک خاتون سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے دونوں سوٹ سیاہ رنگ کے کیوں خریدے تو انہوں نے جھٹ سے کہا: ’آپ کو معلوم نہیں محرم ہے اور ویسے بھی مجھے سیاہ لباس پہننے کا شوق ہے۔‘

لاہور میں ایک برانڈ کے آؤٹ لیٹ پر  موجود سیاہ ملبوسات (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

ویسے تو عیدین، کرسمس اور دیگر مواقعوں پر کپڑے اور جوتے وغیرہ فروخت کرنے والوں کا کاروبار چمکتا ہی ہے لیکن اب اس رحجان میں دیگر مذہبی مواقعوں پر بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خصوصاً محرم میں تمام مشہور برانڈز سیاہ کپڑوں کی تشہیر شروع کردیتی ہیں، جسے ’مونو کروم کلیکشن‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ خیال رائج ہے کہ سیاہ لباس سوگ و غم کی علامت ہے۔

 ایک طرف جہاں بہت سے لوگ اس نئے ٹرینڈ سے مطمئن ہیں، وہیں کچھ لوگ اسے ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ کاروباری حضرات اپنا دھندہ چلانے اور لوگوں کو خریداری پر مجبور کرنے کے لیے اس طرح کے حربے آزماتے ہیں۔

صحافی امبرین زمان خان بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ رجحان گزشتہ چند سالوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ کپڑے فروخت کرنے والی کمپنیوں نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سیاہ کپڑے خریدنے کی طرف راغب کرنا شروع کیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل لوگ محرم کے سوگ میں نئے کپڑے خریدنا تو دور کی بات پہنتے بھی نہیں تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’اگر لوگ دکھ میں شامل نہیں ہو سکتے تو اس طرح غم کی پروموشن بھی نہ کریں۔ سچ میں یہ عجیب سا لگتا ہے کہ اگر لوگ محرم میں رنگین کپڑے نہیں خریدتے تو چلو انہیں سیاہ رنگ سے للچایا جائے۔‘

امبرین زمان خان نے مزید کہا: ’سوگ اور غم کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سیاہ رنگ دنیا بھر میں آج بھی انسان دوست لوگوں کا یکجہتی اور غم کے اظہار کا طریقہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوگ، غم اور دکھ میں سیاہ لباس پہنا جاتا ہے، لیکن ایک اور حقیقت بھی واضح ہے کہ آج کل 70 فیصد لڑکیوں کا پسندیدہ رنگ سیاہ ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ محرم میں آؤٹ لیٹس پر سیاہ لباس ڈسپلے پر لگائے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلماںوں میں صرف ایک ہی طبقہ محرم میں غم نہیں مناتا، یہ دکھ سب کا سانجھا ہے۔‘

کمپنیاں کیا کہتی ہیں؟

جب اس حوالے سے ایک برانڈ کے آؤٹ لیٹ پر موجود کمپنی کے ملازم ندیم نعمان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’اِن دنوں میں لوگ رنگین اور ڈیزائن والے کپڑے نہیں خریدتے، جس سے آپریشنل اخراجات کے باعث انہیں نقصان ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے محرم کے ایام میں سیاہ لباس کی فروخت کو ترجیح دے کر خصوصی ڈیزائن کے لباس تیار کرائے گئے اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔‘

ندیم نعمان کے مطابق: ’محرم میں سیاہ کپڑوں کی سیل سے خسارہ پورا ہو جاتا ہے، اگر نو پرافٹ نو لاس بھی ہو تو نقصان سے بہتر ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے ایک آؤٹ لیٹ پر محرم کے پہلے سات ایام میں 17سو خواتین جبکہ مردوں کے 670 سوٹوں کی خریداری کی گئی اور یہ سب سیاہ رنگ کے تھے۔

’مجھے سیاہ لباس پہننے کا شوق ہے‘

لاہور میں واقع ایک اور برانڈ کے آؤٹ لیٹ پر خریداری کے لیے آئی ہوئی ایک خاتون  سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے دو سوٹ خریدے اور دونوں ہی سیاہ رنگ کے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ جس پر انہوں نے جھٹ سے کہا: ’آپ کو معلوم نہیں محرم ہے اور ویسے بھی مجھے سیاہ لباس پہننے کا شوق ہے لہذا میں ان دنوں میں اس لیے خریداری کرتی ہوں کہ یہ لوگ محرم میں اچھے ڈیزائن کے سیاہ رنگ میں سوٹ لانچ کرتے ہیں اور وہ بھی سیل میں سستے مل جاتے ہیں۔ ایسے میں سوگ کے ایام بھی گزر جاتے ہیں اور بعد میں پہن کر شوق بھی پورا ہو جاتا ہے۔‘

علما کرام کی مختلف تحریروں کے مطابق سیاہ لباس پہننے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ جس طرح سفید رنگ امن کی علامت جبکہ سرخ کو محبت کے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے، اسی طرح کئی مواقعوں پر سوگ کے دوران سیاہ لباس پہنا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر رنگ اپنی الگ خوبصورتی کا حامل ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل