گئے زمانوں میں کسی نے فرقے سے متعلق بات کرنی ہوتی تھی تو اسے فیس بک یا ٹوئٹر میسر نہیں ہوتا تھا۔
دوست آپس میں گفتگو کرتے تھے، زمین پہ بیٹھ کر آسمانی دلائل لائے جاتے تھے، کسی کی ہار نہیں ہوتی تھی اور جیت تو خیر تبھی ہوتی جب کوئی ہارتا۔ ہر مرتبہ دل میں کوئی نہ کوئی بات دبا کے سب اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے، یاری سلامت جو رکھنی ہوتی تھی۔
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری؟
تو پھر جنہیں اپنی دھاک بٹھانی ہوتی تھی وہ بحث کرنے کے لیے اپنے اپنے عقیدے کے حساب سے دین کے عالم آمنے سامنے بٹھا دیتے تھے۔ وہاں بات بڑھتی تو کتابیں ساتھ موجود ہوتیں، حوالے پر حوالہ ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا۔ دن ہفتوں میں بدل جاتے لیکن فیصلہ یا کسی بڑی لڑائی کی صورت ہوتا یا پھر دونوں پارٹیاں برابری کی بنیاد پر علیحدہ ہو جاتیں۔ یہ پروگرام مناظرہ کہلاتا تھا۔ جب لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے تو یہ شغل ترک کر دیا گیا۔
ان دنوں ریکارڈنگ کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ جو بات کی جاتی وہ منہ سے نکلتی اور دلوں میں دراڑیں ڈالتی کچھ سے کچھ ہو کر اگلی نسلوں تک پہنچتی تھی۔ ثبوت یہ دیا جاتا کہ فلاں فلاں بزرگ ابھی زندہ ہیں، ان سے پوچھ لو، ان کے مولوی نے ایسے ایسے کہا تھا یا نہیں؟ اب جو ستر اسی سال کے بزرگ زندہ ہیں ان غریب کو آدھا یاد ہوتا، آدھا بھولے ہوتے، وہ سر ہلا دیتے اور کہانی پہ مہر لگ جاتی۔
ایک صورت یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ پہلی پارٹی کا لاؤڈ سپیکر دوسری پارٹی کے علاقہ غیر کی طرف رخ کر کے لگایا جاتا تھا، دوسرے بھی جواب میں یہی کرتے۔ اب جس وقت ان کی تقریر شروع ہوتی، ادھر یہ بھی کر دیتے۔ جس بے چارے کا مکان درمیان میں ہوتا اسے کچھ سمجھ نہ آتا اور دونوں علما کے سامنے بیٹھے لوگ واہ واہ میں سر ہلاتے رہتے۔ یہ نسبتاً محفوظ معاملہ تھا۔
کتابیں لکھنا بھی ایک طریقہ تھا۔ ہر دھڑے کے پاس ایک ایسا مصنف ہوا کرتا تھا جس نے تازہ تازہ دوسری پارٹی چھوڑی ہوتی تھی اور یہاں جوائن کیا ہوتا تھا۔ یہ کتابیں بڑی مشہور ہوا کرتی تھیں۔ ان کے عنوان اس طرح کے ہوتے جیسے سمجھ لیجیے کہ 'مجھے راہ حق کی سمجھ کیسے آئی؟' یا 'تب مجھے صحیح راستہ ملا۔' یہ ورائٹی سب کے پاس ہوا کرتی تھی۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اپنی طرف والے کو سب دل سے پڑھتے تھے، دوسری طرف جس نے 'راہ حق' پائی ہوتی تھی اس کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ آج کل شاید ہی کوئی نیا مصنف اس طرح سے کچھ لکھ رہا ہو، مارکیٹ میں جو کچھ موجود ہے وہ کلاسیکی نوعیت کی تحریریں ہیں یا نئے لوگوں کی تقریریں ہیں۔
سوشل میڈیا پہ ہم سب اپنے آپ کو ایک انتہائی روشن ضمیر، ذمہ دار، حق پرست اور سچائی کے راستے پہ چلنے والا انسان سمجھتے ہیں۔
جب ہم اچھی طرح خود کو یہ سمجھ لیتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم دوسروں کو بھی اس راستے کی طرف لے کر آئیں۔
یہاں اصل مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ جب ماضی میں آمنے سامنے بیٹھ کر ایسے مسائل پہ بات کرنا کبھی فائدہ مند نہیں ہو سکا تو کسی پروفائلی پردے کے پیچھے چھپ کر وہ بات کس طرح دوسروں پہ اثر کر سکتی ہے؟ جب آپ اختلافی مسئلے پر کچھ بھی پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ چیز آپ کے علم میں ہوتی ہے۔
آپ کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ آپ کی وہ کون سی بات ہو گی جس سے مخالف تلملا جائے گا، اسے اندر تک آگ لگ جائے گی، آپ سوچ سمجھ کے وہ چھوٹے چھوٹے دو چار جملے اپنی تحریر میں ایسے فٹ کر دیتے ہیں کہ یہ باریک کام آپ کے لیے نقصان دہ نہ بنے لیکن دوسروں کے ساتھ پورا ہاتھ ہو جائے۔
سرکار! یہ کاریگری کرتے ہوئے آپ کا عقیدہ نہیں جیت رہا ہوتا، آپ کی انا جیت چاہ رہی ہوتی ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ فریق مخالف لاجواب ہو جائے، وہ کچھ کہہ نہ سکے، اس کے پاس دلیل نہ ہو، وہ جواب میں کچھ اور لکھے، آپ پھر سے کوئی اور دلیل دیں اور فائنل جیت آپ کی ہو۔
غور کریں، 'جیت آپ کی ہو۔' یہ بڑا عجیب سا احساس ہے۔ آپ لڑے اس چیز پر کہ جسے آپ کائناتی کہتے ہیں، جسے آپ آفاقی کہتے ہیں اور جیت اس میں ایک آدمی کی ہوئی، ہار دوسرے شخص کی ہوئی، سکرین شاٹ میں انسان رگڑے گئے، مقدمے بنے تو عام لوگوں پر بنے، مارے گئے تو ہم آپ جیسے مارے گئے لیکن جیتا کون؟ آپ یا مخالف پارٹی؟ تو کیا کبھی ایسا ہوا کہ ہارے ہوئے کسی گروہ نے آپ کی دلیلیں مان کر آپ کا راستہ اختیار کر لیا ہو؟ نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سمجھنے کی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر عقیدے سے متعلق کچھ بھی پوسٹ کرتے ہوئے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نیک عمل ہے تو ایک بار دوبارہ اپنے دماغ کی رائے لے لیجیے۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس سے کسی کو ٹھیک راستہ مل جائے گا تو دوبارہ دیکھیے کہ آپ کی پوسٹ میں اختلاف زیادہ ہے یا راستہ زیادہ ہے؟
اسی طرح اگر کسی کی وال پر کچھ ایسا ہے جو آپ کو پسند نہیں ہے، نامناسب ہے، تو اسے پورا نہ پڑھنا یا پورا نہ دیکھنا، یہ دونوں کام آپ کے اختیار میں ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ وہاں جا کر ایک لمبا چوڑا جواب دیا جائے یا اسے بھڑکتے ہوئے اختلافی نوٹ کے ساتھ شئیر کیا جائے؟
دیکھیے اس سارے کام میں انسان ہی جیتتے ہیں، انسان ہی ہارتے ہیں، جو مدعا ہوتا ہے وہ کہیں بہت پیچھے کھڑا رہ جاتا ہے۔
ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ بھائی، اس کام کے لیے وہ لوگ ٹھیک ہیں جن کا رزق اس سے وابستہ ہے۔ وہ بہتر سمجھتے ہیں کسے کیا جواب دینا ہے، کہاں بحث کرنی ہے، کہاں چپ ہونا ہے اور خود کو محفوظ کیسے رکھنا ہے۔ عام آدمی جب بھی ان معاملات میں کودے گا یا اپنا دل برا ہو گا یا دوسروں سے نفرتیں سمیٹے گا۔ فیس بک کے بعد تو ویسے بھی معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا۔ آپ کی وال آپ کا نامہ اعمال بن کے سامنے آتی ہے جہاں مقدر نے خوار کروانا ہو۔
ہماری آپ کی نسل ان کاموں میں بہت وقت لگا چکی۔ کوشش کیجیے ہمارے بچے اس قسم کے شوق سے محفوظ رہیں۔ انہیں سمجھ ہو کہ جب ہم دوسرے انسان کو کسی بھی بحث میں ہراتے ہیں تو ہمارے خیال یا ہمارے عقیدے کی جیت نہیں ہوتی، وہ ہماری انا کی، ہماری خودی کی جیت ہوتی ہے۔
اور اگر جیت ایک شخص کی ہے تو سوچ لیجیے کہ یہ سب محنت کس راہ میں لگی۔
لیکن اگر آپ نے یہ ساری باتیں مان لیں تو آپ کریں گے کیا؟ لگے رہو منا بھائی!