یہ کہانی ہے پنجاب کے ضلع قصور کہ ایک نوجوان کی جنہوں نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا۔
عثمان اشرف نے جب اس سال نسٹ یونیورسٹی سے سکالرشپ پر الیکٹریکل انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کی تو کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہوگیا۔
اس دوران خود کو مصروف رکھنے کے لیے اور تعلیمی نصاب میں جو کچھ سیکھا، اس پر عمل کر کے تجربہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پھلوں کا ٹھیلا لگایا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ ریڑھی پر کام کر چکے تھے جہاں سے انہیں یہ اندازہ ہوا کہ اب ان کے پاس تعلیم ہے تو وہ یہ کام ایک مختلف انداز سے کرسکتے ہیں۔
گاہک سے کیسے پیش آنا ہے، کاروبار کیسے چلانا ہے اور مارکیٹنگ کیسے کرنی ہے، وہ سب جو یونیورسٹی میں پڑھایا گیا تھا، انہوں نے اس پر عمل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے سات اور بہن بھائی ہیں اور یہ خاندان دو کمروں کے چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ گھر میں ایک ہی واش روم ہے اور تنگ جگہ کی وجہ سے کوئی الماری نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن عثمان سے بات کریں تو کہیں ایسا معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں اتنی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
عثمان کا تعلیم کا سفر ایک سرکاری سکول سے شروع ہوا۔ وہ بتاتے ہیں: 'چھٹی جماعت میں ایک نجی سکول میں داخلہ لیا اور والدین نے ان سے درخواست کی کہ ہمارے بچے کو پڑھنے کا شوق ہے لیکن ہم آپ کی ادارے کی فیس جمع نہیں کر سکتے۔ اسے پڑھنے کے لیے وظیفہ دیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔'
عثمان اشرف نے مزید کہا: 'میں نے اپنی تعلیم ہمیشہ لوگوں کی مدد اور وظیفوں سے مکمل کی۔ ایک وقت یاد ہے کہ مجھے سکول سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ میرے والدین سکول کی فیس جمع نہیں کر پائے تھے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کسی دوسرے سکول سے میٹرک کا امتحان دیا۔ لاہور بورڈ کے ٹاپ پچاس بچوں میں میرا نام شامل تھا۔'
میٹرک کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور، جی سی یو، میں اپلائی کیا جہاں پہلی فہرست میں انجینیئرنگ میں ان کا نام آگیا۔
عثمان اشرف کے مطابق: 'داخلے کی فیس کے پیسے نہیں تھے۔ مگر ایک لگن تھی کہ یار۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھیں گے۔ کبھی کسی سکالرشپ پر اپلائی کیا کبھی کسی۔ پھر آخر کار فیس جمع ہو گئی اور وہاں سے ایف ایس سی کی۔'
کالج میں ہی انہوں نے نسٹ کے بارے میں سنا اور کسی نیٹ کیفے جا کر نسٹ میں داخلے کے لیے اپلائی کیا۔ چار سال بعد وہ وہاں سے سکالرشپ پر گریجویٹ ہوئے۔
عثمان ابھی انجینیئرنگ میں نوکری کی تلاش میں ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ کارپورٹ سیکٹر میں کام کریں اور اس میں اپنا نام بنائیں۔
ساتھ ساتھ عثمان اپنی این جی او پر بھی کام کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ ضرورت مند بچوں کی مدد کرتے ہیں۔