گذشتہ ماہ مجھے جنوبی ایشیا کے صحافیوں کے لیے برطانوی حکومت کے شیوننگ فیلوشپ پروگرام کے لیے چنا گیا، جہاں میں لندن میں موجود دیگر صحافیوں کے ساتھ موجود ہوں۔ میرے ساتھ 17 صحافی موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہندوستان اور پاکستان سے ہے جبکہ دو صحافی سری لنکا اور ایک صحافی بنگلہ دیش سے بھی ہے۔
میرا لندن کا یہ دوسرا سفر ہے مگر پہلا سفر میں نے ایک سال کی عمر میں کیا تھا تو اگر میں موجودہ سفر کو لندن کا پہلا سفر کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔
لندن کی اچھی چیزیں
لندن یا کسی بھی مغربی ترقی یافتہ شہر کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہاں کی سڑکیں لشکارے مارتی ہیں اور انسانی معیارِ زندگی ترقی کے سب سے اونچے زینے پر ہوتا ہے۔ لندن اس لحاظ سے منفرد بھی ہے اور معمولی بھی۔
جب میں نے لندن میں قدم رکھا تو سب سے پہلے میری نظر سر سبز و شاداب پارکوں اور علاقوں پر پڑی۔ لندن اپنے بہترین زیر زمین ریلوے نظام کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور جب میں نے اس پر سفر کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس زیر زمین نظام کی صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ حقیقتاً بھی یہ ایسا ہی ہے۔
لندن میں آپ کو اونچی عمارتیں کم نظر آئیں گی۔ ایک دو مخصوص علاقوں میں آپ کو آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ضرور نظر آئیں گی مگر زیادہ تر عمارتوں کی اونچائی دیگر مغربی شہروں سے کہیں کم ہے۔
یہاں آپ کو عمارتوں کے اندر ایئرکنڈیشننگ بھی نہیں ملے گی، شاید اس لیے کہ یہاں اتنی گرمی ہوتی ہی نہیں کہ اے سی چلانے کی ضرورت پڑے۔ البتہ ہیٹر ہر جگہ موجود ہیں۔ یہاں پاکستان کے برعکس سڑکیں چھوٹی جبکہ پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بڑے نظر آئیں گے۔ رات گیارہ بجے کے بعد لندن میں شور کرنا منع ہے اور اسے کرفیو کا نام دیا گیا ہے۔
لندن صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ یہاں آپ کو بھانت بھانت کے اور مختلف ممالک اور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد نظر آئیں گے۔
لندن آنے سے پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ لندن میں روز بارش ہوتی ہے مگر یہاں پہنچا تو بہار کی دھوپ نے خوش آمدید کہا اور یہ دھوپ پورا ہفتہ چمکتی رہی۔ اسے آپ موسمیاتی تبدیلی کہیں یا میری خوش قسمتی۔
لندن کے منہ چڑاتے مسائل
لندن میں سب سے پہلا مسئلہ جو مجھے درپیش آیا وہ پاکستانی کرنسی کے حوالے سے تھا۔ یہاں پر پاکستانی نوٹ کی تبدیلی بہت کم کی جاتی ہے اور پانچ ہزار کا نوٹ تو بالکل بھی تبدیل نہیں کیا جاتا۔ بڑی تعداد میں پاکستانی ہونے کے باوجود یہ مسئلہ ہونا میرے لیے باعث تشویش تھا۔
لندن تھیمز ندی کی وجہ سے مشہور ہے۔ استبنول اور نیویارک جیسے شہروں میں اگر آپ دریاؤں کا رخ کریں گے تو آپ کو وہاں کے دریاؤں کا پانی نیلا اور صاف نظر آئے گا مگر تھیمز کا پانی ہمارے دریاؤں کی طرح گدلا ہے۔
میرے لندن کا سفر کرنے سے پہلے نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ حملہ ہو چکا تھا، جس کے بعد برطانیہ میں مساجد پر حملوں اور خنجر کے وار کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ میرے یہاں پہنچنے کے بعد بھی لندن میں خنجر کے وار کے دو واقعات ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بھی اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو لندن جیسے محفوظ شہر میں بھی سفید فام نسل پرستوں کی جانب سے ایسے واقعات کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔
لندن میں ایک اور بہت بڑا مسئلہ جس پر آپ کی تب ہی نظر پڑتی ہے جب آپ لندن آتے ہیں وہ بے گھر افراد کا مسئلہ ہے، جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ رات گیارہ بجے کے بعد آپ کو فٹ پاتھ پر لوگ سرعام سوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کچھ کے پاس ٹینٹ ہوتے ہیں تو کچھ بیگ کا استعمال کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ لندن اور دیگر مغربی شہروں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں کی سڑکیں اور فٹ پاتھ لشکارے مارتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لندن میں گھومنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ کچرا ڈالنے کے ڈبوں کی وافر موجودگی کے باوجود یہاں آپ کو کچرا فٹ پاتھوں پر پڑا نظر آئے گا۔ اسے لندن کے باسیوں کی غلطی کہہ لیں یا سیاحوں کی بد تہذیبی مگر کچرے کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ اگرچہ اگلے دن مقامی انتظامیہ صفائی کی بھرپور کوشش کرتی ہے مگر پھر بھی آپ کو کچرے کے تھیلے سڑکوں پر نظر ضرور آئیں گے۔لندن اپنے تمام تر مسائل کے باوجود دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز ہے اور اپنی تمام تر خوبیوں کے باجود لندن کو میرے مشاہدے میں ایک مکمل اور مثالی شہر نہیں کہا جا سکتا۔