کرکٹ کسی دور میں ایک کھیل ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ بیس سالوں میں اس نے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔
اربوں ڈالرکی انویسٹمنٹ ، نشریاتی حقوق سے بے حساب آمدنی اور اشتہاری اداروں کی سرمایہ کاری نے اسے دنیا کی کسی بھی بڑی انڈسٹری کے برابر لاکر کھڑا کردیا ہے۔
ٹی وی سکرین کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کے لیے پہلے ٹی ٹونٹی کرکٹ نے جنم لیا پھر دس اوورز کی کرکٹ اور اب سوگیندوں کا ایونٹ دی ہنڈرڈ آچکا ہے ۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو سارا سال کرکٹ کے شوقینوں کو گیند اور بلے کی جنگ نظر آتی ہے۔
اس کھیل میں قانونی ذرائع سے آمدنی تو بے حساب ہے لیکن غیر قانونی طریقے سے سٹہ بھی کھیلا جاتا ہے جس میں لگنے والی رقم کا شمار توشاید کسی کے پاس بھی نہ ہو۔
پہلے ہار جیت پر شرطیں لگتی تھیں لیکن اب تو ہر گیند پر شرط لگتی ہے ریٹ کھلتا اور بند ہوتا ہے۔
اس قدر مالی فوائد اور بہت بڑے سرمائے کی شمولیت نے کرکٹ کو اب کھیل سے ایک صنعت بنادیا ہے اور اس صنعت سے وابستہ ہرشخص کسی پی ایچ ڈی کرنے والے سے زیادہ آمدنی حاصل کرلیتا ہے کیونکہ پی ایچ ڈی کرنے والا پڑھا سکتا ہے لیکن کچھ بیچ نہیں سکتا لیکن کرکٹر تو اپنی کپڑوں اور بلے پر موجود لوگو سے لے کر چند منٹ کے انٹرویو تک کی پوری قیمت حاصل کرتے ہیں۔
ایک سابق فاسٹ بولر اور کمنٹیٹر سے جب ایک منٹ کے انٹرویو کی بات کی تو انھوں ٹکا سا جواب دے دیا کہ میں پیسے لیتا ہوں میرےمینیجر سے بات کرلو۔
ہر کرکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جب تک کھیل رہا ہے زیادہ سے زیادہ کما لے۔ ہر بڑے کھلاڑی کے مینیجرز ہیں جو ماہر سوداگر کی طرح بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور من مانی قیمت وصول کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اپنی اس قدر بھاری قیمت وصول کرنے والے کرکٹرز اگر صحیح کارکردگی نہ دکھائیں تو ان کے یہ جواز قبول کرلیےجائیں کہ اگلے میچ میں مزید اچھا کرنے کی کوشش کریں گے؟ یا، ہم معافی مانگتے ہیں کہ اچھا نہ کھیل سکے ؟
بھاری رقوم لینے والے کوچز جن کی زنبیل میں صرف ایک زبردست انٹرنیشنل کیرئیر ہی نہیں بلکہ سالوں کا کوچنگ تجربہ ہے وہ اگرکہیں کہ ہمارے بولرز ابھی سیکھ رہے ہیں اس لیے ان پر تنقید نہ کی جائے، کیا یہ درست ہو گا؟
پاکستان کے فاسٹ بولنگ کوچ وقار یونس نے پاکستانی بولرز کے انگلینڈ دورے میں مکمل ناکامی کے بعد دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان بولرز ہیں اس لیے ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں ۔
اگر اس اعلی ترین سطح کی مہنگی ترین کرکٹ میں بھی کنڈر گارٹن کے بچوں کو کھلانا اور پھر ان کی خراب ترین کارکردگی کا دفاع کرنا ہے تو پھر مناسب تو یہ ہوگا کہ ہر میچ میں کسی نئے بولر کو کھلادیا جائے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ کھلاڑی سیکھ سکیں گے۔
آسٹریلین شہریت کے حامل وقار یونس سے زیادہ کون یہ بات جانتا ہے کہ آسٹریلیا میں کوئی بھی کھلاڑی ایک مخصوص کوچنگ سسٹم کے بغیر اعلی ترین سطح کی کرکٹ میں نہیں آسکتا اور اگر کوئی نوجوان بولر آجائے تو اس کی خراب کارکردگی کا نہ تو دفاع کیا جاتا ہے اور نہ اسے آسمان پر بٹھادیا جاتا ہے۔
ایسا شاید ہی کسی اور کرکٹ کھیلنے والے ملک میں ہو کہ پہلے ہی میچ میں اچھی کارکردگی پر اس کا سینئیر کرکٹرز سے مقابلہ شروع کردیا جائے جیسے حیدر علی کا اسد شفیق سے کیا جارہا ہے ۔
نسیم شاہ جس طرح انگلینڈ کے دورے پر ناکام ہوئے اس میں ان سے زیادہ ان کے کوچز کا قصور ہے جو ان کو ڈینس للی بنا چکے ہیں۔
انگلینڈ کی کنڈیشنز فاسٹ بولنگ کےلیے آئیڈیل ہوتی ہیں اور ہر بولر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہاں بولنگ کرے کیونکہ بولر کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، ہوا اور نمی خود گیند کو وکٹ تک پہنچادیتی ہے۔
اس آئیڈیل کنڈیشن میں بھی پاکستان کا پیس اٹیک صرف 14 وکٹ لے سکا جس کی سب سے بڑی وجہ بولرز کا وکٹ کا صحیح استعمال نہ کرنا تھا۔
انگلینڈ کے سلیکٹرز نے یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کی بیٹنگ انتہائی کمزور ہے، پھر بھی جمی اینڈرسن اور سٹورٹ براڈ جیسے تجربہ کاربولرز کھلائے جنھوں نے پاکستانی بلے بازوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے اس کے برعکس نوجوان کم تجربہ کار بولرز کو موقع دیا جو بولنگ کا بوجھ نہ اٹھا سکے ۔
کیا وقار یونس کا یہ موقف کہ بولرز ابھی سیکھ رہے ہیں اس لیے اچھی کارکردگی نہ دکھاسکے دراصل اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار نہیں ہے؟
ایک اعلی ترین سطح کی کرکٹ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس لیول پر جو بھی کھیلے اس کی کارکردگی سو فیصد ہونا چاہئیے ۔
ہم نے کوشش کی ۔۔۔ ہم نے شکست سے بھی سیکھا ہے ۔۔۔ ہم اگلے میچ میں غلطیاں درست کریں گے ۔۔۔ یہ سب ایسے بیانات ہیں جن کوسالوں سے سن رہے ہیں لیکن وہ اگلا میچ ابھی تک نہیں آسکا جس میں غلطیاں درست ہوجائیں ۔
پاکستان کے دونوں بولنگ کوچز وقار یونس اور مشتاق احمد کی بحیثیت کھلاڑی کارکردگی دیکھی جائے تو ان کے شاگردوں میں اس کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے تجربہ کار سپنر یاسر شاہ تو سیکھنے کے مرحلے سے بہت آگے جاچکے ہیں لیکن شاداب خان بھی کچھ نہ کرسکے۔
کرکٹ کی پیشہ وارانہ نوعیت اور بھاری آمدنی کے بعد وقار یونس کے حالیہ بیان پر صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ وقار صاحب یہ پروفیشنل کرکٹ ہے کنڈر گارٹن نہیں ۔۔۔ یہاں سیکھا نہیں جاتا ۔۔۔ یہاں لڑا اور جیتا جاتا ہے ۔۔۔ سیکھنے کے لیے اکیڈمی ہوتی ہے۔