صحافی کا قتل، آزادی صحافت کا خون ہوتا ہے جس پر صحافتی تنظمیں، سول سوسائٹی ادارے اور میڈیا بھرپور احتجاج کرتے ہیں۔ جذباتی تقاریر ہوتیں ہیں، آزادی صحافت کے عہد وپیما، خطرات کی نشاندہی، تحفظ کے مطالبات وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اگر وہ صحافی ایک عورت، ہو تو یہ قتل، ’غیرت‘ کے نام پر، وہ قتل ہے جس کی وجہ نامعلوم قرار دے کر اسے گھریلو تشدد کی کال کوٹھڑی میں سڑنے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے، جہاں سے بدبو اور تعفن اٹھتا رہتا ہے اور اس کے دہانے پر بیٹھا پدرشاہی نظام ناک پر رومال رکھ کر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی صحافی اور اینکر پرسن شاہینہ شاہین بلوچ گھٹن زدہ ماحول میں سانس لینے کی جدوجہد کر رہی تھیں، صنفی مساوات اور آزادی اظہاررائے کے لیے مزاحمت کر رہی تھیں۔
اس حقیقت سے انجان کہ ان کا مخالف ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکی اور ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئیں۔ ایک صحافی خاتون کا قتل ہوا تو فوری طور پرسوشل میڈیا پرقابل مذمت وملامت بیانات کا تانتا بندھ گیا۔
کچھ نے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے صحافیوں کے تحفظ کا تقاضا کیا تو ہر طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں کہ ’بھائی، اس میں آزادی صحافت کہاں سے آ گئی؟ شوہر نے مارا ہے۔ گھریلو جھگڑا تھا اسے صحافت پر حملے سے تشبیہہ دے کربلاوجہ متعلقہ حکام کو نہ جگایا جائے۔‘ اور پھر ایک روز بریکنگ نیوز کی زینت بننے کے بعد یہ خبر دم توڑ گئی۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ شاہینہ کی شادی صرف پانچ مہینے پہلے ہوئی تھی۔ اب ذرا یاد کیجیے لاہور میں کچھ ماہ پہلے قتل ہونے والی صحافی عروج اقبال، جن کو شوہر نے گولی مار دی تھی۔ صرف سات ماہ کی شادی، علیحدگی اور پھر قتل، شوہر کا مطالبہ تھا کہ عروج صحافت چھوڑ دے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان میں دس مہینوں میں دو خواتین صحافی قتل کر دی گئیں، دونوں کے شوہر پر قتل کا الزام، دونوں کی شادی چند ماہ کی اور دونوں کے شوہر حضرات کو ان کے کام سے مسئلہ تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ہم یہ سوال اٹھانے کی جرات کر سکتے ہیں کہ قتل کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے، اور وہ کون سے عناصر ہیں جو صحافتی آوازوں کا گلہ گھوٹنے کے لیے ’آنر کلنگ‘ کا سہارا لے رہے ہیں؟ غیرت کے نام پر قتل اس لیے ہوتے ہیں کہ مجرم کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ عروج کے شوہر کو دیت کی ادائیگی پر معاف کر دیا گیا اور بہت حد تک ممکن ہے کہ شاہینہ کے شوہر کو بھی معاف کر دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کہیں دیت کی آڑ میں خواتین صحافیوں کے سر کی قیمت تو نہیں لگائی جا رہی؟ لیکن یہ سوال اٹھائے گا کون؟
پاکستان میں آزادی صحافت کے علم بردار ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ طاقتور صحافی، کمزور صحافی، خوشامدی ٹولہ، محب وطن صحافی، تحقیقاتی صحافت، غدار صحافی، سوشل میڈیا صحافی اور پھر مرد صحافی، خواتین صحافی۔۔۔ فہرست کافی طویل ہے۔
لیکن اب تو خواتین صحافیوں میں بھی دو واضح دھڑے وجود میں آئے ہیں۔ ایک وہ جو سوشل میڈیا پر خود پر ہونے والے حملوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئیں، جنسی ہراسانی، ریپ اور قتل کی دھمکیوں کو منظر عام پر لا کر اپنے مخالف کو للکارنے لگیں۔
دوسرا وہ گروپ جس نے دعویٰ کیا کہ صرف ایک سیاسی جماعت نہیں، ان منظم حملوں میں اور بھی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل ملوث ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس کے باوجود اصل اور سنگین مسئلے سے توجہ ہٹا کر خواتین صحافیوں پر فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلانے کا الزام لگا کر بدنام کیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے اس گھناونی مہم میں کچھ خواتین بھی شامل ہیں۔
جب اپنی ہی صفوں میں پھوٹ پڑی ہو تو آپ کس سے اور کیوںکر انصاف کا تقاضا کریں گے؟ جب ہر طرف حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بٹ رہے ہیں ہوں تو آپ درمیانی راستہ تلاش کریں اور غلطی سے سوال اٹھا لیا تو آپ اٹھا لیے جائیں گے۔
اگر آپ مرد صحافی ہیں تو آپ کی تدفین اس اعزاز کے ساتھ ہو گی کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید کر دیے گئے اور اگر آپ خاتون صحافی ہیں تو آپ کو غائب کرنے یا قتل کرنے کے لیے باہر کے لوگوں کی ضرورت نہیں شوہر، باپ، بھائی یا بیٹا ہی یہ فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔
گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے گی اور'غیرت' کے نام پر کیا جانے والا یہ صحافت کا قتل ہمیشہ غیر محسوب ہی رہے گا۔