پشاور چڑیا گھر میں زمبابوے سے ہاتھیوں کو درآمد کرنے کا مسئلہ گذشتہ ایک سال سے خبروں میں ہے، تاہم وفاقی حکومت این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ) دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
اس حوالے سے ایک مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، جس کی یکم ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے ایڈیشنل سیکرٹری ماحولیات کو حکم دیا کہ وہ خود چڑیا گھر کادورہ کرکے حالات کا جائزہ لیں اور 14 دن کے اندر رپورٹ پیش کریں۔
پشاور ہائی کورٹ میں مذکورہ مقدمہ لڑنے والے وکیل امان اللہ مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'وفاقی حکومت پہلے تاخیری حربوں سے کام لے رہی تھی اور اب ان کے پاس کوئی ٹھوس جواز بھی نہیں رہا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'حالیہ سماعت میں جسٹس قیصر رشید نے ایڈیشنل سیکرٹری جودت ایاز کو احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر زمبابوے کی حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکومت دونوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو وفاقی حکومت کیوں این او سی جاری کرنے میں تردد کا شکار ہے۔'
این او سی کیوں نہیں دیا جارہا؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے تین کاروباری حضرات نے اپنی ایک نجی کمپنی کی وساطت سے 2017 میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے جاری شدہ ایک ٹینڈر کے لیے اپلائی کیا تھا جس کی بِڈنگ جیتنے کے بعد وہ اس بات کے پابند تھے کہ وہ پشاور چڑیا گھر کے لیے کل سات جانور مہیا کریں گے۔
اس کمپنی کے ایک پارٹنر اشفاق نے بتایا کہ پانچ جانوروں کے لیے انہیں وفاقی حکومت سے این او سی مل گیا تھا جبکہ ہاتھیوں کے جوڑے کی این او سی دینے میں وفاقی حکومت غیر ضروری حیل وحجت سے کام لے رہی ہے۔
اشفاق نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت کے تاخیری حربوں کی وجہ سے نہ صرف ان کی ایک خطیر رقم پھنسی ہوئی ہے بلکہ انہیں ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'ہم نے ہاتھیوں کا جوڑا سات کروڑ روپے میں خریدا۔ زمبابوے جانے کے لیے فی کس ایک لاکھ 60 ہزار روپے میں ٹکٹ خریدنے کے علاوہ وہاں قیام کے پیسے الگ خرچ کرنے پڑے۔ اب چونکہ ہم ہاتھی خرید چکے ہیں اور پاکستان کی وفاقی حکومت ان کو درآمد کرنے کے لیے این او سی جاری نہیں کر رہی، لہذا ہم نے ہاتھیوں کو زمبابوے میں ایک نجی فارم ہاؤس میں رکھا ہوا ہے، جن کو پالنے کے لیے ہم ہر ماہ تقریباً تین ہزار ڈالر بھیج رہے ہیں۔'
اس حوالے سے درخواست گزاروں کے وکیل امان اللہ مروت نے بتایا کہ وفاقی وزارت ماحولیات نے سب سے پہلے یہ عذر پیش کیا کہ ہاتھیوں کو پاکستان درآمد کرنے پر دراصل بین الاقوامی سطح پرپابندی لگی ہوئی ہے۔
'وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز (سائٹیز) اجازت نہیں دے رہا ہے، اس بیان کو عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے ہم نے سائٹیز کے آئین کا مطالعہ کیا، جس میں کہیں ایسی پابندی کا ذکر نہیں تھا۔دوسرا عذر ہاتھیوں کو رکھنے کے لیے درکار رقبے اور وہاں کے ماحول کا پیش کیا جارہا ہے حالانکہ پشاور چڑیا گھر کا دورہ کرنے کے بعد زمبابوے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے پشاور چڑیا گھر کو ہر زاویے سے ہاتھیوں کے لیے تسلی بخش قرار دیا تھا۔'
مذکورہ مقدمے سے متعلق اگلی سماعت 17 ستمبر کو ہوگی، تاہم اس حوالے سے وفاقی حکومت سے مانگی گئی رپورٹ کو 14 ستمبر تک عدالت میں جمع کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں چڑیا گھروں کے لیے جانور کیسے درآمد کیے جاتے ہیں؟
پاکستان کے چڑیا گھروں کے لیے زیادہ ترجانور مختلف ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، یوگینڈا، کینیا، نیمبیا، زمبابوے اور سری لنکا سے بذریعہ بحری جہاز لائے جاتے ہیں، جن پر کئی کروڑ تک کا خرچہ آتا ہے اور شپنگ کمپنیاں مختلف جانوروں کے وزن اور قسم کے حساب سے معاوضہ لیتی ہیں۔
پاکستان میں مختلف چڑیا گھروں کو جانور فراہم کرنے کے لیے بیشتر نجی کمپنیاں یہ کام سرانجام دے رہی ہیں، جس کے باعث ان کمپنیوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب یہ کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف مختلف حربوں کے استعمال کا الزام بھی عائد کرتی رہتی ہیں۔