وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک تاریخی تقریب میں متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر کے تعلقات معمول پر لانے جا رہے ہیں جسے ایران کے خلاف مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ’سٹریٹجک صف آرائی‘ کہا جا رہا ہے۔
منگل کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس تقریب کی میزبانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔
تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زیاد ال نہیان اور بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف ال زیانی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین اس طرح کا اقدام اٹھانے والے بالترتیب تیسرے اور چوتھے عرب ممالک بن جائیں گے۔ اس سے قبل 1979 میں مصر اور 1994 میں اردن بھی ایسے ہی معاہدے کر چکے ہیں۔
ایک ہی ماہ میں دو عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کی فلسطینیوں کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اسرائیلی اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہونے والی تقریب کا دن عرب دنیا کے لیے ایک اور ’یوم سیاہ‘ ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی اور حماس نے ان معاہدوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے اپنے عوام کی ’پشت میں خنجر‘ قرار دیا ہے۔
فلسطینیوں کی جانب سے منگل کو ٹھیک اسی وقت احتجاج کرنے کا کہا گیا ہے جب امریکی دارالحکومت میں یہ تقریب ہو رہی ہوگی۔ انہوں نے دیگر عرب ریاستوں سے بھی ’جشن میں حصہ نہ لینے‘ کی درخواست کی ہے۔
اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو یکجا کرنے سے ان کی ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور بیلسٹک میزائل بنانے کے حوالے سے مشترکہ تشویش ظاہر ہوتی ہے۔
ایران ان دونوں ہی معاہدوں پر تنقید اور ان کی مذمت کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ابراہم معاہدے‘ کا اعلان کیا تو جہاں باقی دنیا اسے ’تاریخی لمحہ‘ قرار دے رہی تھی، وہیں یہ معاہدہ ایران میں خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔
ایران کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے معاہدے کی مذمت تو کی مگر ساتھ ہی اس کے نتائج سے بھی خبردار کیا۔ یہ ایران کی طرف سے حکمت عملی میں تبدیلی کی طرف اشارہ تھا۔
اس معاہدے کو ایران نے ’سٹریٹجک حماقت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینیوں کی ’پشت میں خنجر‘ ہے۔
ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے سامنے آنے والے شدید ردعمل میں اس طرح سے تعلقات کو معمول پر لانے کو ’تاریخی حماقت‘ قرار دیتے ہوئے گیا کہ اس سے متحدہ عرب امارات کی قیادت کا ’مستقبل خطرے‘ میں ہے۔