پاکستان میں سماجی و سیاسی کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فرقہ ورانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرے۔
اس سلسلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جمعرات کو مذہبی تنظیموں کے اتحاد متحدہ سنی کونسل کے زیر اہتمام ہزاروں مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے حکومت پر فرقہ ورانہ نفرت کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بھی شرکا آئے ہوئے تھے۔
اس سے قبل کونسل اس قسم کے احتجاج کراچی اور پشاور میں بھی منعقد کر چکی ہے جس میں محرم میں رونما ہونے والے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں توہین مذہب کے بڑھتے ہوئے مقدمات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بظاہر حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کے چیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے اس بیان میں بتایا کہ بظاہر محض اس سال اگست کے مہینے میں 40 کے قریب مقدمات توہین مذہب کے قانون کے تحت درج ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے اس کا الزام ہمسایہ ملک بھارت پر لگایا ہے۔ ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہندوستان پاکستان میں شیعہ سنی فساد کرانے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان پر امتحان کا وقت ہے۔‘
ہندوستان پاکستان میں شیعہ سنی فساد کرانے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے- پاکستان پر امتحان کا وقت ہے- ہمیں اپنے اپنے عقیدے کو چھوڑنا نہیں اور کسی کے عقیدے کو چھیڑنا نہیں -ایک اور نیک ہو کر پاکستان کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے- پاکستان ہی عالم اسلام کی حقیقی طاقت ہے
— Sheikh Rashid Ahmad (@ShkhRasheed) September 18, 2020
اسلام آباد میں جس روز یہ احتجاج کیا جا رہا تھا، اسی دن صبح ایک بینک مینجر سید رضا نقوی کو نامعلوم افراد نے دفتر کی سیڑھوں پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کے مطابق قتل کی وجہ ایک پرانا تنازعہ ہوسکتا ہے لیکن وہ تنازع کیا تھا اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
اسلام آباد میں احتجاج کے ایک منتظم قاضی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ وہ حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والوں کا احتساب کرے۔ ’حکومت کو اس سلسلے میں قانون سازی کرنی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنی کونسل اس قسم کے احتجاج ملتان اور لاہور میں بھی منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اسلام آباد میں احتجاج کی وجہ سے بعض علاقوں میں ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مقامی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے ہوئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد محمد حمزہ شفقات نے بتایا کہ مظاہرین نے احتجاجی ریلی قانون کے اندر رہتے ہوئے منعقد کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ ’کسی بھی کالعدم تنظیم کا کوئی رکن اس ریلی میں شریک نہیں ہوا۔‘
محرم الحرام کے بعد سے ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں بظاہر اضافہ دیکھا جا رہا ہے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس میں کمی لانے کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہی ہے۔