جہاد اللہ سرکاری سکول میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں مگر آج کل کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے سکول بند ہونے پر مردان کی پرانی سبزی منڈی میں ہتھ ریڑی پر سبزی فروخت کر رہے ہیں۔
ان کے والد اسی سبزی منڈی میں ایک دکان پر کام کرتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جہاد اللہ نے بتایا کہ جب سکول بند ہوا تو انہوں نے سبزی منڈی میں مزدوری کی غرض سے سبزی بیچنا شروع کر دی۔
’اب سکول کھل گئے ہیں لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے کلاس روم میں 30 طالب علموں کو اجازت ہوتی ہے اسی وجہ سے ایک دن سکول جاتا ہوں، دوسرے دن چھٹی ہوتی ہے تو چھٹی کے دن سبزی منڈی میں کام کے لیے آتا ہوں۔‘
جہاد اللہ نے بتایا کہ آٹھویں جماعت میں انہوں نے پورے سال میں صرف تین چھٹیاں کی تھیں کیونکہ ’مجھے پڑھائی کا شوق ہے لیکن اب کرونا وبا کی وجہ سے پہلے سکول بند تھے اور اب سکول میں جگہ نہ ہونے پر ایک دن جانا پڑتا ہے تو دوسرے دن چھٹی ہوتی ہے۔‘
ملک میں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر حکومت نے مارچ کے مہینے میں تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا اور چھ ماہ بعد ملک بھر میں مرحلہ وار 15 ستمبر سے دوبارہ تعلیمی ادارے کھول دیے گیے ہیں، جس میں پہلے مرحلے میں 15 ستمبر سے کلاس نہم سے یونیورسٹی تک تعلیمی اداروں کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ 22 ستمبر سے چھٹی سے آٹھویں جماعت تک اجازت دے دی گئی۔
حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں محکمہ صحت کی جانب سے ایس او پیز پر سختی سے عمل کرانے کی ہدایت کی گئی ہے جس میں ماسک کا استعمال، سینیٹائزر اور طالب علموں کا آپس میں فاصلہ رکھنا شامل ہیں۔
جہاد اللہ کی طرح خیبرپختونخوا کے اکثر طالب علم ایس او پیز پر عمل کرنے کی وجہ سے کلاس رومز میں جگہ نہ ہونے پر ہفتے میں دو سے تین دن گھر پر ہوتے ہیں جس سے انہیں نصاب مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس سلسلے میں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول بغدادہ کے پرنسپل اشرف علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرکاری سکولوں میں ہجوم کا ایشو ہے اور کمروں کی کمی کی وجہ سے اکثر کلاس رومز میں 70 سے 100 تک طالب علم ہوتے ہیں جس کے لیے متبادل پالیسی بنائی گئی کیونکہ کلاس روم میں ایس او پیز کے مطابق 30 تک طالب علم کو بٹھایا جا سکتا ہے اور باقی طالب علموں کو چھٹی دینا پڑتی ہے۔
پرنسپل اشرف علی نے بتایا کہ ہم نے سکول میں طلبہ کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک گروپ تین دن سکول آتا ہے تو اگلے تین دن دوسرا گروپ پڑھائی کے لیے سکول آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ٹیچر اور سکول انتظامیہ پر بھی بوجھ بڑھ گیا ہے اور ایک سبق بار بار دہرانا پڑتا ہے لیکن تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے سکول عملہ ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے۔
طلبہ کا نصاب آدھے دنوں میں کیسے مکمل کیا جائے گا؟ اس سوال پر اشرف علی نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے سکول بند ہونے پر پہلے سے محکمہ تعلیم نے نصاب کو 40 فیصد کم کر دیا ہے اور ہر مضمون کے لیے ایک ورک شیٹ تیار کر دی ہے اور صرف ضروری سبق ہی ورک شیٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متبادل طریقہ کار سے بچوں کے تعلیمی سال پر اثر پڑے گا لیکن کرونا سے بچاؤ کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔
تحصیل کاٹلنگ کے ہائر سیکنڈری سکول بدر بانڈہ کے پرنسپل لعل ودود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے پاس کلاس دہم میں 102 اور نویں جماعت میں 98 طلبہ ایک کلاس روم میں تھے لیکن ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے اب انہیں دو سکیشن میں تقسیم کردیا ہے اور ہر ایک سیکشن میں 25، 25 طلبہ ہوتے ہیں۔
ایس او پیزکے لیے حکومتی فنڈ کے بارے میں پرنسپل لعل ودود نے بتایا کہ ’میرے سکول کو کوئی فنڈ جاری نہیں ہوا ہے اور ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے صابن، سینیٹائزر، ماسک وغیرہ اپنی جیب سے خریدے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیبرپختونخوا کے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ڈائریکٹر حافظ ابراہیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا کی روک تھام کی غرض سے بند تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھولنے کا طریقہ کامیابی سے جاری ہے اور اب تک پانچ تعلیمی اداروں کو عارضی طور پر اساتذہ، سٹاف اور دیگر ارکان میں کرونا کا مثبت ٹیسٹ آنے پر بند کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیسف کے تعاون سے بہت سے سکولوں میں صابن اور سینٹیائزر دیے گئے ہیں جبکہ پورے صوبے میں یونیسف کے ہی تعاون سے پانچ ہزار سکولوں کے پرنسپلز کو کرونا ایس او پیز کے حوالے سے ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے سکولوں میں ٹیچرزکو تربیت دیں۔
سکولوں میں ایس او پیز کے لیے فنڈنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی فنڈز جاری نہیں کیا گیا البتہ ہدایت کی گئی ہے کہ سکولوں میں موجود پی ٹی سی یا دوسرے فنڈز سے اپنے سکول کے لیے ایس او پیز کے لیے ضروری سامان خریدا جائے۔
ڈائریکٹر ایجوکیشن نے کہا کہ اس وقت صوبہ خیبرپختونخوا بشمول قبائلی اضلاع میں 35000 سکولز ہیں جس میں 50 لاکھ بچے پڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوبارہ تعلیمی ادارے کھولنے کے ابتدائی دن سخت ہیں، اگر دو تین ہفتے صحیح گزرے تو خطرہ مزید ٹل جائے گا اور آگے پھرکوئی مشکل نہیں ہوگی۔