جدید امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع انتخاب سے قبل امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور ان کے مدمقابل امیدوار جوبائیڈن اپنے درمیان تین مباحثوں میں سے پہلے میں ایک دوسرے کے سامنے آئے ہیں۔ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں ہونے والا مباحثہ ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ لیکن یہ مباحثہ کون جیتا؟ دی انڈپینڈنٹ امریکہ کی ٹیم اپنے فوری ردعمل کے بارے میں بتا رہی ہے۔
جان بینٹ، واشنگٹن بیوروچیف
ممکن ہے ڈونلڈٹرمپ نے اپنی قدامت پسند بنیاد کو حیران کیا ہو لیکن دوسرے چند ہی لوگ حیران ہوئے۔ میرے سکوربورڈ پر جوبائیڈن خاصے آگے رہے۔ ان کا انداز زیادہ صدارتی دکھائی دیا جب کہ موجودہ صدر اپنے حریف جوبائیڈن اور فوکس نیوز کے میزبان کرس والیس سے الجھتے رہے۔ یہاں تک کہ تفصیل بتائے جانے پر انہوں نے بالادستی کے قائل سفید فام گروپوں کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا، خاص کر انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے مالک گروپ'پراؤڈ بوائز'کی مذمت نہیں کی۔
صدر نے انکار کر دیا اور پراؤڈ بوائز سے متعلق محض اتنا کہا: 'پیچھے رہیں اور تیار رہیں۔' جو بائیڈن نے امریکہ کے موجودہ صدر کو بار بار'شٹ اپ'اور'خاموش رہیں'کہا اور قومی ٹیلی ویژن پر انہیں'مسخرہ'کہہ کرپکارا۔ ٹرمپ تمام رات سابق نائب صدر پر چیختے رہے اور ان کا چہرہ جلد ہی سرخ ہوتا رہا۔ انہوں نے جعلی بیانات جاری کیے اور اپنے دوسرے بار انتخاب کے نکتہ نظر کے حوالے سے بہت کم بات کی۔
سابق نائب صدر جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے وہ کرتے دکھائی دیے۔ انہوں نے صحت اور کرونا (کورونا) وائرس کے بارے میں بات کی۔ مضافات میں رہنے والی ان سفید خواتین کو ہدف بنانے کی کوشش کی جنہوں نے 2016 میں ٹرمپ کی حمایت کی تھی لیکن دو سال کانگریس کے ڈیموکریٹ امیدواروں کے حق میں الگ ہو گئیں۔
فاتح: بائیڈن
اینڈریوبن کم، امریکہ میں چیف کارسپانڈنٹ
سکور: ٹرمپ 50، بائیڈن 50
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹروں میں سے 14 فیصد منگل کے مباحثے میں شریک ہونے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکے۔ کیا وہ ووٹر جنہوں نے مباحثے میں شرکت کی اس سے خاص طو پر متاثر تھے جو انہوں نے اس شام دیکھا؟ شاید ایسا نہیں۔
70 برس سے زیادہ عمر کے دو افراد نے ایک دوسرے کے بارے میں بحث اور باتیں کی، جہاں تیسرے شخص جن کی عمر بھی 70سال سے زیادہ تھی صورت حال کو سنبھالنے میں ناکام رہے۔ ڈونلڈٹرمپ جوبائیڈن پر جارحانہ حملے، ان پر بائیں بازو کا انتہاپسند ہونے کا الزام لگانے اور ان کے خاندان پر الزامات کے ذریعے ان کے قدم اکھاڑنے کی کوشش کے منصوبے کے ساتھ مباحثے میں گئے۔
انہوں نے ہر موقعے پر ایسا ہی کیا لیکن صدر نے اپنی اپیل کو ایک وسیع تر اتحاد تک پھیلانے کی بہت کم کوشش کی۔ ٹرمپ جو شورشرابے سے بھری اور ناخوشگوارکارکردگی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے ،ٹھیک ویسے ہی شخص تھے جنہیں ہم نے اس وقت تک دیکھا جب وہ 2015 کے موسم گرما میں صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
جوبائیڈن کا منصوبہ تھا کہ وہ کوشش کر کے ان حملوں کو نظرانداز کر دیں۔ اعتماد اور سکون کا اظہار کریں اور اپنی حریف کی ناکامیوں کو اجاگرکریں جن میں کرونا وبا سے ہونے والی دو لاکھ اموات ہیں جن کا بہت سے لوگوں نے صدرکو ذمہ دار قرار دیا۔
بائیڈن یقینی طورپر زیادہ پرسکون تھے۔ خاص طور پر جب ان کا ٹرمپ سے موازنہ کیا جائے لیکن بائیڈن کو گرمجوشی دکھانے میں بہت وقت لگا۔ جب انہوں نے گرمجوشی دکھائی تو چند شائستہ جملے کہنے اور اپنے بیٹوں کے بارے میں حقیقی جذبات کے اظہار میں کامیاب رہے۔
گریفن کونلی۔ امریکہ میں سیاسی کارسپانڈنٹ
صرف ایک شخصیت جنہوں نے منگل کے مباحثے میں کوئی کامیابی حاصل کی وہ امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ سپیکرنینسی پیلوسی تھیں۔ انہوں نے جوبائیڈن پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ کو اپنے ساتھ بحث میں الجھا کر'ٹھیک'کریں۔
جمعے کو پیلوسی نے کہا: 'تکلیف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ(ٹرمپ)سچ نہیں بولتے۔' بظاہروہ(ٹرمپ)کسی دوسرے کوبولنے بھی نہیں دیتے۔ نہ بائیڈن کو حتیٰ کہ نہ فوکس نیوز سے تعلق رکھنے والے مباحثے کے میزبان کرس والیس کو۔
والیس نے بلند آواز میں کہا: 'جناب صدر انہیں بات کرنےدیں۔ جناب صدر براہ کرم رک جائیں۔' ایک موقعے پر ٹرمپ اور والیس کے درمیان تکرار کی نوبت وہی ہو گئی جس طرح ٹرمپ نے تمام شام بائیڈن کے بولنے میں رکاوٹ ڈالی۔
فوکس نیوز کے میزبان نے جھگڑے سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: صاف بات کی جائے تو آپ(ٹرمپ)زیادہ مداخلت کر رہے ہیں۔' اگر کوئی امیدوار باربار اور مسلسل روکے جانے کے بغیر اپنی بات نہیں کہہ سکتا تو ہم یہاں کر کیا رہے ہیں؟'
ہولی بیکسٹر، یو ایس وائس ایڈیٹر
میرے پیارے، مسٹر صدر۔ کئی مہینوں تک اپنے حریف جوبائیڈن کو 'سلیپی جو بائیڈن' (سویا ہوا جوبائیڈن)، 'ڈیمینشیا جو' پکارنے، برنی سینڈرز کے بارے میں سازشی نظریات اور الیگزینڈریا اوکاسیو-کورٹیز (اے او سی) کی جانب سے پس پردہ ڈور ہلانے کے دوران ایک بے لگام اور مردہ دماغ شخص حکم دیتا رہا۔ اب یہ معمولی لگتا ہے، لیکن یہ بے وقوفانہ ہے ناں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ اس پہلے صدارتی مباحثے کے دوران جو بائیڈن مسکرائے اور ہنستے رہے اور اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا، ٹرمپ نے خود کو غصے میں مبتلا کردیا، سفید فاموں کی بالادستی کے حامل نظریات رکھنے والوں کی مذمت کرنے سے انکار کردیا اور تجویز کیا کہ بافخر لڑکوں کو 'الگ نظر آنا چاہیے۔' ان کی باڈی لینگویج نے یہ سب کچھ بیان کیا جب انہوں نے اپنے پرسکون حریف کے پاس کھڑے ہوکر پرتشدد انداز میں اشارہ کیا۔
وہ لمحہ جب ٹرمپ کو معلوم تھا کہ واقعی ان کی دال نہیں گل رہی ہے تو انہوں نے اس طرح سے کمزور واپسی کی کہ 'جو، میں شرط لگاتا ہوں کہ تم مجھ سے زیادہ کھیلو گے،' جیسا کہ جو بائیڈن نے کہا تھا کہ صدر اہم سیاسی معاملات جیسے کہ کرونا وائرس جیسے وبائی امراض کو حل کرنے کی بجائے چھٹیوں میں گالف کھیلنے چلے گئے تھے۔
کسی جلسے میں حامیوں کے بغیر، وہ ایک موضوع سے اگلے موضوع کی طرف جا رہے تھے جیسے کہ سوشلزم، اینٹیفا، جعلی خبریں، ہنٹر بائیڈن، امن و امان۔ ان کی نگاہوں میں بڑھتی ہوئی گھبراہٹ دیکھ کر کسی نے بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: 'آپ نے سمارٹ کا لفظ استعمال کیا؟ میں اپنی کلاس میں کم ترین نمبروں کے ساتھ گریجویٹ ہوا۔ میرے لیے سمارٹ کا لفظ کبھی استعمال نہ کریں۔کسی نے بھی امریکی پرچم نہیں لہرایا اور نہ ہی خوشی کا اظہار کیا۔ بائیڈن اس سب کے دوران مسکرا رہے تھے اور وہ مسکراتے رہے۔
یہ کہنا پڑتا ہے کہ بائیڈن اس بحث کو بالکل اتنا نہیں جیتے، جتنا ٹرمپ اسے ہار گئے تھے۔ یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے کبھی رات کے کھانے کی میز پر دو دادا بحث کرتے دکھائی دیں کہ ٹرکی کو کون کاٹے گا۔ لیکن کسی بھی فیصلے پر نہ پہنچنے والے ووٹر کو یقین ہو جائے گا کہ اصلی سیاست دان کون ہے اور ٹرمپ کی 'سوشلزم' سے متعلق سنسنی خیز خبروں کے باوجود وائلڈ کارڈ کون ہے۔
لوسی اینا گرے، ایڈیٹر ناظرین
جوبائیڈن نے ٹھیک وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ ڈونلڈٹرمپ کی طرح ہٹ دھرمی، غصیلے اور اکھڑپن پر مبنی رویے کا مظاہرہ کرتے جیسا کہ ہم نے آج رات دیکھا تو وہ کسی سے عزت نہ کرواتے۔ یہ وہ سیاست نہیں جس کی اس وقت لوگوں کو ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ کوئی خامیوں سے پاک کارکردگی نہیں تھی لیکن بائیڈن نے کافی حد تک خود کو زیادہ بالغ نظر اور متوازن امیدوار ظاہر کیا۔ آج رات کے فاتح واضح تھے۔
رچرڈ ہال۔ امریکہ میں سینیئر کارسپانڈنٹ
آج کے مباحثے نے امریکہ کے قد کو چھوٹا کیا۔ کئی دہائیوں سے یہاں تک کہ الیکشن کی سب سے زیادہ کشیدہ اور تلخ مہمات کے دوران بھی صدارتی امیدواروں کے مباحثے ووٹروں کے لیے موقعے رہے ہیں کہ وہ پالیسی پر سوالات اور خیالات پر مخالفت کا سامنا کرنے والے امیدواروں سن سکیں۔ یہ مباحثہ ایسا نہیں تھا۔
ٹرمپ نے رکاوٹ پیدا کی، چیخے اور پورے مباحثے کے دوران جھوٹ بولا۔ صدر آغاز میں ہی میزبان کے قابو سے نکل گئے اور پھر وہ ان پر کبھی قابو نہ پا سکے۔
کرونا وبا سے لے کر تباہ کن معاشی بحران کے اہم مسائل پر سوالات کے جوابات سنائی نہ دیے۔ اگر اس شام کوئی ایسے ووٹر موجود تھے جنہوں نے کوئی فیصلہ کیا تو انہیں آج رات کے شو سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔
ایلیکس وڈورڈ
جوبائیڈن کے ساتھ اپنے پہلے مباحثے میں ڈونلڈٹرمپ نے خودکو غلط معلومات سے مسلح کیا جو انہوں نے اپنی ریلیوں میں موجود ہزاروں حمائتیوں اور ان لاکھوں لوگوں کے سامنے پھیلائی تھیں جو ان کی ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی پریس بریفنگز دیکھ رہے ہوتے تھے۔
وہ اپنے ریکارڈ اور کووڈ 19 بحران اور اس کے معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے دفاع کی کوشش میں یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ان سے امریکی شہری کس طرح متاثر ہوئے۔
اس طرح جوبائیڈن کو وہ سب کچھ کرنے کا موقع مل گیا جو انہوں نے اپنے تمام کیریئر کے دوران کیا، یعنی امریکی شہریوں سے بات کرنا۔ صدر نے حقیقت کا دامن چھوڑ دیا جس سے براہ راست نشریات کے دوران حقائق کو جانچنے کا امکان تقریباً ختم ہو گیا،لیکن ان کی جانب سے بار بار رکاوٹ ڈالنے کا عمل اور حملے 90 منٹ کے مباحثے پر حاوی رہے جس سے توجہ کا مرکز بنے رہے۔
© The Independent