بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں جوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد مزدوری کرتی ہے، جنہیں سہولیات کی عدم فراہمی اور حادثات کے نتیجے میں قدم قدم کا موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کریم بخش نے بھی بلوچستان کےعلاقے مچھ کی ایک کوئلہ کان میں 12 سال کی عمر سے مزدوری شروع کی اور آج 60 برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی وہ یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کریم بخش نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا 'اس وقت میری عمر کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کی تھی، لیکن گھر کے حالات کے باعث مجھے والد کے ساتھ کوئلے کی کان میں مزدوری کرنی پڑی جو اب تک جاری ہے۔
کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم کتنی گہرائی سے کوئلہ نکالتے ہیں۔ یہ کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کی عمر کم ہو۔ ہم جب کوئلے کی کان میں اترتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ واپس نکلنا نصیب میں ہوگا یا نہیں کیونکہ ہم تقریباً تین ہزار فٹ گہرائی تک چلے جاتے ہیں۔'
حفاظتی سامان اور انتظامات نہ ہونے کے باعث صوبے کی کوئلہ کانوں میں ہونے والے حادثات میں مزدوروں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ کریم بخش نے مزید بتایا کہ انہوں نے عمر کا بڑا حصہ کوئلے کی کان میں گزار دیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا کیوں کہ 'جو کماتے ہیں، وہی شام کو خرچ کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں کم عمر مزدوروں کے ساتھ ناجائز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ 'بڑی عمر کے لوگوں کے درمیان کام کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں، مجھے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔' کوئلے کی کانوں میں غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سروے کرنے والے ایک سماجی رضاکار بہرام لہڑی اس صورت حال کو بچوں کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔
بہرام لہڑی نے بتایا: '2010 اور 2011 میں سروے کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ کوئلے کی کانوں میں آٹھ سے 10 ہزار بچے کام کر رہے ہیں، جنہیں تعلیم اور صحت کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس وقت جب ہم نے سروے کیا تھا تو ہر 100 میں سے 30 بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔'
بہرام نے سروے کے لیے مچھ، بولان اور دشت میں واقع کوئلے کی کانوں کا دورہ کیا تھا۔ موجودہ صورت حال کے حوالے سے بہرام لہڑی بتاتے ہیں کہ '2019 میں جب انگریزی اخبار 'ڈان' میں کوئلے کی کانوں میں بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تو میں نے دوبارہ کوئلے کی ان کانوں میں سے چند کا دورہ کیا اور مجھے صورت حال سابقہ حالت سے بھی زیادہ خراب نظر آئی کیوں کہ اب کام کرنے والے کم عمربچوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے۔'
ملک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے مائنز ایکٹ 1923 لاگو ہے، جس کے تحت ایسے خطرناک کم کام کرنے والے بچوں کی عمر 15 سال رکھی گئی ہے۔ بہرام سمجھتے ہیں کہ چائلڈ لیبر کو روکنے میں قدیم زمانے کا قائم قانون اتنا موثر نہیں ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں حکومت بلوچستان نے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کم عمر مزدوروں کے حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ چیف انسپکٹر آف مائنز بلوچستان کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق چائلڈ لیبر کے مائن ایکٹ 1923 کی سیکشن 26-اے کے تحت 15 سال سے کم عمر بچوں کے زیر زمین کام پر پابندی لگادی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعلامیے کے مطابق: 'جس نوجوان کی عمر 17 سال ہو اس کو اس وقت تک کام کی اجازت نہیں ہوگی، جب تک ایک دن یا 24 گھںٹوں کے دوران اس کو مسلسل 12 گھنٹوں کا وظیفہ نہ دیا جائے جبکہ وقفہ شام کے سات بجےسے صبح کے سات بجے تک ہونا چاہیے۔'
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ حکومت بلوچستان نے چائلڈ لیبر کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور قانون کی خلاف ورزی پر لیز کو بند کرکے مائن مینیجر، ٹھیکیدار اور دیگر ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
بہرام نے بتایا کہ مائنز ایکٹ 1923 کے علاوہ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 بھی موجود ہے، جس میں بچوں کے خطرناک کام کرنے کی عمر 14 سال رکھی گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ اس لیے بھی نہیں ہو رہا کہ ملک میں قانون انتہائی کمزور ہے، ان قوانین میں بچوں کی جو عمر رکھی گئی ہے، وہ بھی اقوام متحدہ کے بچوں کے حوالے سے آرٹیکل کے خلاف ہے۔
سماجی رضاکاروں کا کہنا ہے کہ اگرحکومت نے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا ہے تو اسے اس حوالے سے قانون کو سخت کرنا چاہیے۔ پرانے ایکٹ سے اس کے خاتمے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتیں۔