ماں کے ہاتھ کے پکے کھانے، واہ کیا جادو ہے!

ماں چاہے آج کے دور کی ہو یا ماضی کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے ہاتھ کے کھانوں کی بات کچھ الگ ہوتی ہے۔

(پکسا بے)

اس بات میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ماں کے ہاتھوں سے تیار کھانا بھلا کون بھلا سکتا ہے۔

جن کی والدہ حیات ہیں اور اس قابل ہیں کہ وہ باورچی خانے کا مورچہ سنبھال سکیں تو وہ تو اب تک اس ذائقے کے مزے لوٹ رہے ہوں گے اور جو اس شفقت سے محروم ہیں کہ ان کے ذہن اور زبان کہاں ان کھانوں کو فراموش کرسکتے ہیں جو مائیں عام طور پر تیار کرتی تھیں۔

نجانے کیا بات ہوتی کہ معمولی سا کھانا بھی خاص بن جاتا۔ ایسے خلوص، اپنائیت اور چاہت سے تیار ہوتا کہ آج تک اس ذائقے کو ترستے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ دنیا کے بہترین ہوٹل یا ریستوران میں کھا لیں لیکن اِن کھانوں میں وہ ذائقہ چھو کر بھی نہیں گزرے گا جو ماں کے ہاتھ سے بنے پکوانوں میں ملتا تھا۔

ذرا پیچھے پلٹ کر ماضی میں سفر کریں تو کسی فلم کی طرح ساری باتیں آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر ناشتے کے بعد اگلا پڑاؤ دوپہر اور شام کے کھانے کا ہوتا۔ اب دور حاضر کی طرح جوسر یا گرینڈر جیسی سہولت تو تھی نہیں۔ سادہ سا دور تھا۔ اسی لیے سل یا ہاون دستہ نکال کر ایک صبر آزما آزمائش اور محنت مشقت کے بعد مسالوں کی تیاری ہوتی۔

مشترکہ خاندانی نظام ہوتا تو کوئی پیاز ادرک اور لہسن کاٹ رہا ہوتا تو کوئی چاول ابالنے میں مصروف ہوتا تو کوئی آٹا گوندھنے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں مگن ہوتا۔ کوئی مٹر چھیل رہا ہوتا تو کوئی گوبھی یا آلو پر ہاتھ صاف کر رہا ہوتا اور پھر مختلف مراحل سے گزر کر فائنل مرحلہ والدہ کے ہاتھوں سے ہی سرانجام دیا جاتا۔

بریانی بنانا مقصود ہوتی تو اس کے مسالے الگ ہوتے، نہاری کے لیے بھی یہی رہنما اصول ہوتے۔ کوفتے، شامی کباب، قورمہ وغیرہ بھی اسی فہرست میں آتے۔ فی زمانہ تو بازار چلیں جائیں، ڈبوں میں بند مسالوں کی بہار مل جائے گی۔ نہاری کا الگ ہے، کوفتے کا الگ، بریانی کا علیحدہ، یہاں تک کہ تکہ بوٹی تک کا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حد تو یہ ہے کہ مختلف کمپنیوں کے اشتہارات میں ماں کے کھانوں کو جب ڈبوں میں بند ان مسالوں سے ملایا جاتا ہے تو دل کڑھ ہی جاتا ہے۔ کیونکہ مائیں کبھی ڈبوں کے تیار مسالوں سے کھانا بناتیں۔ ستم ظریفی جناب یہ بھی ہے کہ اب مٹراور سیم کے بیج چھیلنے کی جھنجھٹ سے بھی آزادی مل گئی ہے، اسی طرح ادرک، لہسن اور پیاز بھی چھیلی چھیلائی بازار میں دستیاب ہے۔ یعنی مشکلیں آسان تر ہوتی جا رہی ہیں، کیونکہ سبزی فروش بھی اس بات سے واقف ہیں کہ وقت بہت قیمتی ہے اور اسی وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اب دو منٹ میں نوڈلز تک تیار ہوجاتے ہیں۔

 گھر میں کسی مہمان کی آمد ہونے والی ہوتی تو ماؤں کا جوش و خروش عروج پر ہوتا۔ درحقیقت دعوت کا انتظام میلے کا روپ دھار چکا ہوتا۔ کسی ٹی وی چینل کے کھانے پکانے کی نوٹ شدہ تراکیب کے بجائے نسل در نسل بتائے گئے گُر پلو میں باندھ کر باورچی خانے میں گھس جاتیں۔ سل بٹہ سنبھال کر گھنٹوں مسالوں کی تیاری ہوتی۔ خیر جی پودینے یا ہرے دھنیا کی چٹنی ایسی بنتی کہ ہمارے جیسے خوش خوراک بلکہ چٹورے چھپ چھپا کر روٹی سے ہی اس پر ہاتھ صاف کرنے لگ جاتے۔ یقین جانیں کہ کڑوا کسیلا کریلا بھی کچھ ایسا تیار ہوتا کہ دل میں خیال آتا کہ خوامخواہ اس سبزی کو بدنام کیا ہوا ہے۔

بچو ں کے تدریسی کام کاج پر انہیں دعوت والے دن استثنیٰ حاصل ہوتا۔ ساتھ ساتھ ان کے لیے اماؤں کا بیانیہ یہ ہوتا کہ ’مہمانوں کے سامنے غپڑ غپڑکر کے کھانے نہ لگ جانا کہ کہیں کم نہ پڑ جائے، جب وہ چلے جائیں، پھر دے دوں گی۔‘ دسترخوان پر بیٹھتے تو مہمانوں کی موجودگی میں ہاتھ چلانے کے بجائے اما ں کی آنکھوں کے اشاروں پر ہی چل رہے ہوتے۔

اماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی بچ جاتی تو وہ اگلے دن تیل کا تڑکا لگا کر پراٹھے کی صورت میں ناشتے پر ملتی۔ رات کے بچے ہوئے کھانے کو ماسیوں کو دینے کا رواج تو تھا ہی نہیں، جبھی دوپہر میں اس کھانے میں کسی سبزی یا کسی اور آئٹم کا اضافہ کرکے ایک نیا روپ دے دیا جاتا۔

 جبکہ کچھ پکوان تو ایسے بھی ہوتے جن کی تیاری میں بارہ بارہ گھنٹے لگ جاتے، جیسے ’شب دیگ‘ جسے دھیمی آنچ پر رات پر پکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ جبھی تو اس میں ایک نیا ذائقہ اور مزا ہوتا۔ ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ گھر میں ہی اچار کی تیاری کا مرحلہ بھی والدہ محترمہ ہی سر انجام دیتیں۔ اچار بنانے کے لیے اس کے لوازمات کو دنوں تو کبھی ہفتوں دھوپ میں سکھایا جاتا۔ کچے آموں کا، شلجم کا، لیموں کا اور نجانے کون کون سے اچار گھر میں ہی تیار ہوتے، لیکن اب یہ کمی بھی بوتلوں اور ساشوں میں ملنے والے اچار سے پوری کردی جاتی ہے۔

کون محنت کرے کون وقت برباد کرے، بس بازار جائیں، رقم دیں ‘ لے آئیں جو اچار کھانا ہو۔ ذرا غور تو کریں کہ کس طرح اور کن لامحدود وسائل میں یہ لذیذ اور مزے دار کھانے تیار ہوتے تھے۔ جن کو کھانے کے بعد حقیقت میں ہی انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔

شادی شدہ ہوئے تو ایک دو بار کسی کھانے کو دیکھ کر بے ساختہ کہا، ’ارے یہ امی بنایا کرتی تھیں بڑا مزے دار!‘

بیگم صاحبہ کی غصیلی نگاہیں اور تیور دیکھ کر احساس ہوا کہ شاٹ مارنے کے لیے غلط گیند کا انتخاب کیا ہے۔ جبھی بیک فٹ پر جا کر، گھر میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے خاطر اس کھانے کی بھی تعریف کرنا پڑی۔

فی زمانہ خواتین کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوا۔ مسائل بڑھے ہیں اور ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ بیشتر گھرانوں میں مشترکہ خاندانی نظام کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے لیکن ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موجودہ دور کی خواتین کے ہاتھ میں ذائقہ نہیں کیونکہ اس کا احساس ہمیں اُس وقت ہوا جب ہمارے صاحبزادے نے اپنی ’اماں‘ سے درخواستانہ انداز میں یہ کہا کہ ’ماما‘ آج بنادیں ناں نرگسی کوفتے، قسم سے آپ کے بنائے ہوئے بہت لذیذ ہوتے ہیں۔‘

ہمیں طوعاً و کرہاً اعتراف کرنا پڑا کہ ماں چاہے ماضی کی ہو یا آج کی، جادو ہے واقعی اس کے ہاتھوں میں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ