تب فرنگی سامراج پورے ہندوستان پر چھایا ہوا تھا۔ خوانین، نواب اور جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ زرخرید مذہبی رہنما بھی ان کی حمایت میں وہاں کھڑے تھے جہاں آج شیخ رشید کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اس سناٹے میں پختونوں کی روایت پرست اور دیہاتی معاشرے سے جو ایک دو دلیر اور توانا آوازیں اُبھریں ان میں سے ایک باچا خان کی تھی اور پھر وہ اپنی پسلیاں تڑواتے قید و بند کاٹتے اور اذیتیں سہتے ساری عمر اپنے ضمیر کی آواز بنتے رہے۔
نہ ہی کسی مصلحت کا شکار ہوئے اور نہ ہی کسی خوف نے پسپائی کا راستہ دکھایا۔ ان کی نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے بھی ان کی دیانت اور دلیری کی مثال دیتے رہتے ہیں۔
آگے بڑھتے ہیں۔
خان عبدالولی خان اسی باچا خان کے بیٹے ہیں جو اپنے باپ سے ورثے میں ملی دلیری اور دیانت داری کے ساتھ دانش مندی کا اضافہ بھی کر جاتے ہیں۔ دانش اور بصیرت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آج سے لگ بھگ 40 برس قبل کہا کہ جب تک پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کی قیادت نہیں کرئے گا تب تک جمہوری استحکام اور محلاتی سازشوں کا خاتمہ ایک خواب بنا رہے گا۔
مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی پنجاب سے ہی لڑی جائے گی۔ آج کا سیاسی منظرنامہ اور ولی خان کی کہی ہوئی بات آپ کے سامنے ہے۔
یہ یہی ولی خان ہی تھے جو ساری عمر آمریتوں اور غیرجمہوری اقدامات کے خلاف میدان میں ڈٹتے اور قید و بند کاٹتے رہے۔
ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح میدان میں اتریں تو اپوزیشن جماعتوں کی سب سے توانا آواز ولی خان ہی کی تھی۔ بھٹو دور میں جابرانہ اقدامات کے خلاف ننھی سے اپوزیشن میں بھی گونج دار آواز ولی خان ہی کی ٹھری جس کا نتیجہ حیدرآباد ٹرائبیونل کی شکل میں سامنے آیا اور وہ اپنے سرکردہ ساتھیوں سمیت پابند سلاسل ہوئے۔
جنرل ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹا اور مارشل لا نافذ کیا تو ولی خان اور ان کے ساتھیوں سردار خیر بخش مری، غلام احمد بلور اور میر گل خان نصیر وغیرہ کو رہائی ملی لیکن گھر میں کسی خوفزدہ خاموشی یا مصلحت کی چادر تان کر سونے کی بجائے ولی خان آمریت اور مارشل لا حکومت کے خلاف میدان میں نکل آئے اور چوکوں اور چوراہوں میں مسلسل دلیری کے ساتھ گرجتے رہے۔
یہ یہی ولی خان ہی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی رفقا نواب زادہ نصراللہ خان، نصرت بھٹو، مفتی محمود اور غوث بخش بزنجو وغیرہ کےساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیا کو مسلسل للکارتے اور جمہوری جدوجہد کو سنوارتے رہے۔
کون سا جبر اور کونسی پسپائی؟
کون سا آمر اور کون سی مصلحت؟
اس حوالے سے تو اس خاندان اور جماعت کی تاریخ ہی الگ رہی لیکن کیا کیجیے کہ ان بےرحم حقائق کو دیکھنا اور سہنا پڑ رہا ہے کہ اس جماعت کے وہ بلند قامت لوگ بھی مٹی اوڑھ کر سو گئے اور ان کی سر بلند سیاست بھی بظاہر قصہ پارینہ بن گئی۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ جو جمہوری جدوجہد اور سٹیٹس کو کے علم برداروں کے درمیان ایک واضح خط تفریق کھینچ چکی ہے اور سیاسی پارہ اپنی حدت اور شدت کو چھو رہا ہے لیکن اے این پی خلاف معمول الگ تھلگ بلکہ منظر سے غائب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں کے قائدین نیب کی پیشیاں بھگت رہے، قید و بند کاٹ رہے ہیں، ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں اور میڈیا پر ان کا بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے لیکن اس جبر ناروا کے باوجود بھی نواز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو زرداری سے محمود خان اچکزئی تک آگے بڑھتے اور ڈٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اے این پی اور اس کے قائدین کی خاموشی بلکہ گمشدگی وہ کربناک معمہ ہے جو سیاست کے ہر طالب علم کو چونکا رہی ہے کیونکہ یہ ’اجنبیت‘ اس خاندان اور اس جماعت میں پہلی بار دکھائی دے رہی ہے۔
اگر ان پرآشوب سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت احتیاط کے ساتھ بھی تجزیہ کیا جائے تو فی الوقت اے این پی جمہوری جدوجہد کی بجائے کسی ’اور سمت‘ میں دیکھتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اس وقت نہ تو وہ اپنی تاریخ سے ہم آہنگ دکھائی دے رہی ہے نہ ہی اپنے سیاسی مزاج سے متعلق۔
یہی وجہ ہے کہ اے این پی کا روایتی سخت جان ورکر تذبذب اور حیرانی سے دوچار بہت حد تک غیرمتعلق ہو کر رہ گیا ہے جبکہ اسی خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمٰن کا ورکر اپنے لیڈر کے اعتماد اور تحریک کے سبب حد درجہ پراعتماد اور متحرک ہو کر اول الذکر پر سبقت حاصل کرتا جا رہا ہے۔
موجودہ تپتے سیاسی منظرنامے میں اے این پی قائدین کی خاموشی اور لاتعلقی اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت خوفناک سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ حقیقت بہرحال سامنے ہے کہ اسی مصالحانہ رویئے کے سبب خلاف روایت اس جماعت کا کوئی رہنما نہ تو جیل کاٹ رہا ہے اور نہ ہی نیب کی پیشیاں بھگت رہا ہے۔
ایک رنج اور حیرت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے کہ اس جماعت کی تاریخ تو وہ ہرگز نہیں جس تاریخ کی طرف اسے موڑ دیا گیا ہے۔ بہت تلخ ہی سہی لیکن سچ بہرحال یہی ہے کہ اے این پی نے جہاں آج کل پڑاؤ ڈالا ہوا ہے وہاں کی آب و ہوا پی ٹی آئی اور ق لیگ جیسے قبیلوں کو راس آتی ہے اے این پی کو نہیں۔
باچاخان اور ولی خان کے پیروکار تو جمہوری جدوجہد کا ہراول دستہ بن کر جی اٹھتے ہیں کیونکہ سیاسی مصلحت اور خاموشی تو ان کا مزاج بھی نہیں اور سیاسی تربیت بھی نہیں۔
۔۔۔۔
نوٹ: اس مضمون میں دی جانے والی رائے مصنف کی ذاتی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔