خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقہ ڈھیری زردار کے ایسی دو بچیاں جن کے سر جڑے ہوئے تھے لندن میں کامیاب آپریشن کروانے کے بعد اپنے گھر واپس پہنچ گئی ہیں۔
لندن میں دنیا کے بڑے معیاری ہسپتالوں میں شمار کیے جانے والے ہسپتال گریٹ آرمنڈ سٹریٹ میں تین کامیاب آپریشنز کے بعد دونوں کمسن بہنوں کے سر ایک دوسرے سے جدا کر دیے گئے اور دو سال سے زائدعرصہ لندن میں علاج کے بعد رواں سال 24ستمبر کواپنےعلاقہ ڈھیری زرداد میں اپنےگھر بھیج دیا گیا ہے۔
صفا اور مروہ کے دادا محمد سعادت حسین نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے پوتیاں صفا اور مروہ جن کی اب عمریں تین سال اور نو ماہ ہیں کی پیدائش ہوئی تو ان کے سر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان بچیوں کے والد زاہد اللہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔
’وہ دن ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا جب پتہ چلا کہ پاکستان میں بچیوں کا علاج ممکن نہیں ہے۔‘
سعادت حسین نے کہا کہ جب میڈیا پر میری پوتیوں کی پیدائش کی خبر چلی تو اس وقت وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے نوٹس لیا اور سرکاری خرچہ پر بچیوں کا علاج پمز ہسپتال اسلام آباد میں کرانے کے احکامات جاری کیے۔
انہوں نے کہا کہ تین ماہ تک پمز میں علاج ہوتا رہا لیکن ڈاکٹرز نے جواب دیا کہ ان کو آپریشن کے لیے لندن لے جانا پڑے گا، مگر جب خرچے کا اندازہ لگایا گیا تو وہ کروڑوں روپے تھا جس کے لیے مرکزی حکومت تیار نہیں تھی تومایوس ہو کر واپس بچیوں کو اپنے گھر لے آئے۔
بچیوں کی دادا نے بتایا کہ ان کے علاج کے لیے مقامی انتطامیہ اور صوبائی حکومت سے مدد کے لیے احتجاج بھی کیا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے پاس بھی درخواست لے کر گئے جس کے بعد مقامی سطح پر حکومتی سیاسی پارٹی کے کارکنان نے کہا کہ چندہ مہم شروع کریں گے۔
’بعد میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے گھر آ کر لندن کے ویزوں اور ٹکٹ کا سرکاری سطح پر بندوبست کرنے کا اعلان کیا جبکہ بعد میں پی آئی اے والوں نے بچیوں کے یے سٹریچر کے چارجز جو کہ ساڑے پانچ لاکھ سے زیادہ بنتے تھے ڈیمانڈ کیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے سعودی عرب میں مقیم ضلع نوشہرہ کے محمد اشفاق نامی شخص نے ان پیسوں کا بندوبست کرنے کا کہا اور پی آئی اے کو رقم ادا کی، جبکہ بعد میں ائیرپورٹ سے لندن ہسپتال تک کے پیسے اور بچیوں کی ٹکٹس کے لیے پی آئی اے کو اپنی جیب سے 72 ہزار روپے ادا کرنے پڑے اور کچھ بیرون ملک افراد نے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ علاج کے لیے بھی چندہ اکھٹا کیا جائے گا۔
محمد سعادت حسین نے کہا کہ اس وقت ہم بہت خوش تھے کہ اب لندن میں بچیوں کاعلاج ممکن ہوسکے گا اور ائیرپورٹ سے سیدھا ہم ایمبولینس کے ذریعے لندن کے گریٹ آرمنڈ سٹریٹ ہسپتال پہنچے تو وہاں پر ہمیں بتایا گیا کہ بچیوں کے علاج کے لیے تو کوئی پیسہ جمع نہیں کیا گیا۔
’ہم بہت پریشان ہوئے اور وہاں پر موجود ڈاکٹراویس جیلانی سے کہا کہ ہم چندے کے پیسوں سے بچیوں کا علاج کریں گے جس پر ڈاکٹراویس جیلانی نے تسلی دی اور کہا کہ چندے کے بغیر آپ کی بچیوں کا علاج ہوگا جس کے لئے انہوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے لندن میں مقیم مرتضیٰ لاکھانی سے رابطہ کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے آج تک ہمیں نہیں معلوم کے بچیوں پر کتنا خرچہ ہوا اور آپریشن سے لے کر اب تک بچیوں کے علاج کا خرچہ وہ اٹھاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے 145 دنوں کے لیے گئے تھے جس پر 18 کروڑ روپے خرچے کا اندازہ لگایا گیا لیکن بعد میں ہم وہاں پر دوسال اور ایک ماہ تک رہے۔
سعادت حیسن نے کہا پاکستان سے 10اگست2018 کو روانگی ہوئی اور اکتوبرمیں پہلا آپریشن ہوا اور فروری 2019 میں بچیوں کا آخری کامیاب آپریشن ہوا۔
صفا اور مروہ کے دادا سعادت حسین جو کہ بچیوں کی دیکھ بھال خود کرتے ہیں نے مزید بتایا کہ ابھی تو ’کچھ دن سے چیک اپ تو نہیں کیا گیا لیکن گریٹ آرمند سٹریٹ ہسپتال کے ڈاکٹراویس جیلانی اب بھی رابطے میں ہیں اوربچیوں کے چیک اپ کے لیے پشاور میں موجود شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹرز سے بات کی گئی ہے جبکہ بچیوں کو کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
لندن کے ڈاکٹرزاور ہسپتال کا ماحول کیسا پایا؟
عمر رسیدہ سعادت حسین کہتے ہیں کہ لندن اور پاکستان کے ڈاکٹرز کے روئیوں میں بہت زیادہ فرق ہے ’وہ لوگ انتہائی خوش اخلاق اور انسان دوست ہیں۔‘
لندن کے ڈاکٹر اتنے نرم رویے رکھتے ہیں کہ مریض اور اس کے لواحقین سے بات کرنے کی اجازت مانگتے ہیں جبکہ پاکستان میں تو ڈاکٹر کسی سے بات تک نہیں کرتے۔
بچیوں کے دادا نے کہا کہ بچیاں ابھی کمزور ہیں چل پھر نہیں سکتیں اور ابھی ان کی فزیوتھراپی کی جا رہی ہے جبکہ لندن کے ڈاکٹر نے ہدایت کی ہے کہ جب بھی بچیوں کو کچھ مسئلہ ہو تو رابطہ کرنا، انہیں واپس لندن بلانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔