قفقاز خطے کے متنازع علاقے نگورنو کاراباخ پر قبضے کے لیے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان دو ہفتوں سے گھمسان کی جنگ جاری ہے، ایسے میں روس کے صدر ولادی میر پوتن نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو امن مذاکرات کے لیے ماسکو آنے کی دعوت دی ہے۔
صدر پوتن نے آذربائیجان اور آرمینیا کو دعوت نامے بھجواتے ہوئے کہا کہ نگورنو کاراباخ میں ہونے والی لڑائی کو انسانی بنیاد پر روکنے کی ضرورت ہے۔
روس ایک ایسے وقت دونوں متحارب حریفوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسٔلے کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے جب آذربائیجان، آرمینیا اور اس کے اتحادی علیحدگی پسندوں کے مابین تقریباً دو ہفتوں سے جاری رہنے والی لڑائی کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا، اس جنگ میں اب تک دونوں جانب سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
کریملن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں پوتن نے کہا: ’آذربائیجان اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ کو 9 اکتوبر کو ماسکو میں مدعو کیا جارہا ہے۔ روس چاہتا ہے کہ لاشوں اور قیدیوں کا تبادلہ کرنے کے لیے انسانی بنیادوں پر نگورنو کاراباخ میں لڑائی روک دی جائے۔‘
آرمینیا نے اب تک دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین جھڑپوں کے دوران کسی بھی طرح کی بات چیت کو مسترد کر دیا ہے۔
اس سے پہلے جنیوا میں بند دروازوں کے پیچھے آرمینیا کی شرکت کے بغیر مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہے، جس سے بہت کم امیدیں تھیں اور اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔
1990 کی دہائی کے بعد سے کاراباخ تنازع کے حل کے لیے فرانس، روس اور امریکہ کا ایک گروپ ’منسک‘ تشکیل دیا گیا تھا۔ آذربائیجان کے وزیر خارجہ کو ان ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقات کرنا تھی۔
دوسری جانب آرمینیا نے جمعرات کو آذربائیجان پر نگورنو کاراباخ میں ایک تاریخی گرجا گھر کو گولہ باری کے ذریعے نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔
آرمینین حکام نے بتایا کہ گرجا گھر پر ہونے والے حملوں میں متعدد صحافی بھی زخمی ہوگئے ہیں۔
ایک مقامی شہری شمعون نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہاں کوئی فوج نہیں ہے۔ آپ کسی چرچ کو کس طرح نشانہ بناسکتے ہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ممالک کے درمیان اس متنازع علاقے پر جاری لڑائی میں عام شہریوں سمیت سیکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ یہ 1994 کی جنگ بندی کے بعد کی بدترین صورت حال ہے۔ دونوں فریقوں نے اس خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی پوزیشنوں کو مضبوط کر دیا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا میں دفاعی عہدیداروں نے کہا ہے کہ جمعرات کی رات تک لڑائی جاری رہی جبکہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کے دعووں کے ساتھ ساتھ شہریوں کے خلاف گولہ باری کا الزام بھی لگایا ہے۔
سابق سوویت یونین کے دور میں نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کے اندر خود مختار علاقہ بنایا گیا تھا۔ اس نے 1991 میں آذربائیجان سے آزادی کا اعلان کیا جس کے تین ماہ بعد سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ 1992 میں اس پر تنازع شروع ہوگیا، جس میں ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار لوگ ہلاک ہو گئے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 1994 میں کشیدگی ختم ہوگئی اور آرمینیائی فوج نے نہ صرف نگورنوکاراباخ کا علاقہ اپنے پاس رکھا بلکہ علاقے کی باضابطہ سرحد سے باہر بھی کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔