ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت فروری میں نصف مدت یعنیٰ اڑھائی سال مکمل کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف 16 اکتوبر سے احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے والی ہے۔
اپوزیشن اس احتجاجی تحریک کو آئندہ سال کے ابتدا میں بھرپور شکل دینے کی خواہاں ہے۔ایک مرتبہ پھر ملک میں جمہوریت خطرے میں قرار دے کر اپوزیشن نے اپنے تازہ اتحاد کو پاکستان جمہوری تحریک یا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا نام دیا ہے، جس کا پہلا جلسہ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں شیڈول ہے۔
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خرم دستگیر کا آبائی علاقہ گوجرانوالہ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں شاید جلسہ تو کامیاب ہو جائے اور اس کی وجہ بظاہر اس اتحاد کی پیچھے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کی ڈرائیونگ فورس ہو گی۔
ملک میں احتساب کے جس قسم کا سلسلہ جاری ہے اس میں پہلے صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نشانے پر تھی لیکن اب مولانا فضل الرحمٰن بھی نیب کے ریڈار پر ہیں۔ تو تینوں کا مسئلہ سانجھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احتجاج کا فوکس کیا ہے؟ حکومت پر محض دباؤ تاکہ ان کے خلاف احتسابی مہم کمزور کی جائے یا پھر عوام کا دکھ؟ جو بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
حکومت سے بھی معیشت نہیں سنبھل رہی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ احتساب کے شور کے پیچے چھپنا چاہ رہی ہے کیونکہ کرپشن کے مقدمات میں سے نکلا ابھی تک کچھ بھی نہیں۔
پی ڈی ایم کے جلسوں میں شاید کٹر سیاسی کارکن تو آئیں اور پنڈال بھی بھر جائیں گے لیکن شاید یہ حکومت پر کسی معنیٰ خیز دباؤ کی وجہ نہ بن سکیں۔