قوالی کے بادشاہ مرحوم نصرت فتح علی خان بھلے ہی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کا فن موسیقی نہ کبھی مر سکتا ہے اور نہ پوری دنیا میں ان کے فن کے مداح کم ہوسکتے ہیں۔ اب نئے گلوکار ان کی طرز اپنا کر اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کا نیا روپ اختیار کرنے والے یہ گلوکار کامیاب ہوں یا نہ ہوں اس کا فیصلہ تو نصرت فتح علی خان کے لاکھوں مداح ہی کرسکتے ہیں لیکن کشمیر کے نوجوان وقار خان کو نصرت فتح علی کے طرز پر قوالی گانے پر جو پذیرائی مل رہی ہے اس سے بقول وقار خان ’میرا ایک باصلاحیت موسیقار بننے‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا ہے۔‘
وقار خان لائن آف کنٹرول کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے دور دراز گاؤں کرناہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسیات میں اعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے لیکن اپنا بیشتر وقت موسیقی سیکھنے اور سنانے کے لیے وقف کرتے ہیں۔
وقار کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی لوگ انہیں نصرت فتح علی کہنے لگے جب وہ کسی بھی محفل میں ان کی آواز میں گانا گاتے تھے۔ ’میں نے بھی اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اگر نصرت فتح علی نہیں بن سکتا مگر ان کے طرز پر قوالی گا کر ان کے مداحوں کی تشفی کا ذریعہ تو بن سکتا ہوں۔‘
بھارتی ٹیلیویژن چینل نیوز 18 کے موسیقی کے مقابلے میں وقار کو کافی سراہا جا رہا ہے اور ناظرین انہیں نصرت فتح علی کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔
چینل کے گروپ ڈائریکٹر راجیش رینہ کہتے ہیں کہ ’وقار خان ہی نہیں بلکہ ان کی طرح کشمیر کے بیشتر نوجوانوں میں فنون لطیفہ کی اتنی صلاحیتں موجود ہیں کہ یہ پوری دنیا پر راج کر سکتے ہیں۔ ٹیلنٹ ہنٹ کے اس پروگرام کے ذریعے ان نوجوانوں کو اپنی صلاحیت دکھانے کا موقعہ دیا جاتا ہے اور دنیا سے متعارف ہونے کا ایک بہانہ بھی مل جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر میں بیشتر والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینیر بنانے پر اپنا سارا سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ ابھی معاشرہ اتنا فراخ دل نہیں کہ بچوں کو بالخصوص لڑکوں کو آسانی سے گلوکار بننے کی حامی بھرے گا۔ ایسا وقار کے ساتھ بھی ہوا جو کہتے ہیں کہ والدین نے پہلے اس کو چھڑوانے کے ہر جتن کیے لیکن اب ذرا ان کا طریقہ بدل گیا ہے۔ جب انہیں مقامی سطح پر کئی انعامات سے نوازا گیا اور ان کو بھی محسوس ہوا کہ موسیقی میری روح میں رچ بس گی ہے حالانکہ موسیقی کی وجہ سے کچھ رشتے چھوٹ بھی گئے۔
وقار کہتے ہیں کہ ’جموں کشمیر میں اتنے مواقعے نہیں ملتے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوشل میڈیا نے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جو کسی کو بھی اپنا فن آگے لانے میں کافی فائدہ مند ہے اور میرے لیے تو یہ ایک معجزہ ہے۔‘
کشمیر کے اس پر آشوب دور میں جہاں ایک طرف نوجوانوں کی روزانہ ہلاکتیں جاری ہیں تو دوسری طرف بیشتر نوجوان زندگی میں آگے بڑھنے کے بےشمار خواب بھی پالتے ہیں۔
یہ نوجوان دوسرے نوجوانوں کی طرح ہنسنا چاہتےہیں، آزادی سے گھومنا پھرنا چاہتے ہیں، حسین خوابوں کی دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور وقار خان کی طرح مستی میں گنگنانے کا مواقع تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر ان پر چاروں طرف سے پہرے بٹھائے گئے ہیں۔
درون خانہ اپنے والدین کی آنکھوں میں خوف دیکھ کر یہ نوجوان گھٹن محسوس کر تے ہیں۔ ایک لمحے کی نارمل زندگی کی تڑپ سے چیخ اٹھتے ہیں ان کے لیے حقیقت کی دنیا بہت ہی بےرحم اور ظالم بن گئی ہے جس نے کشمیر کی مٹی کو ہی اتنا زہر آلود کر دیا ہے کہ یہ مٹی بھی صرف خون ہی اگلتی رہتی ہے۔
وقار کی طرح نوجوانوں کی موجودہ نسل اسی کشمکش میں مبتلا ہے کہ کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نظر آئے اور انہیں زندہ رہنے کی ضمانت دے مگر ان کے راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ مواقع ناپید ہو رہے ہیں اور مستقبل تاریک بنایا گیا ہے۔
ہر روز کی آہ و فغاں کے بیچ میں جب وقار کی روح کو چھونے والی آواز گونجتی ہے تو شاید ایک نیا آسمان نظر آتا ہے ایک نیا سورج طلوع ہونے کی بشارت ملتی ہے اور ایک نئی صبح کی اذان سنائی دیتی ہے۔