بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج نے اچانک مقامی نوجوانوں کے لیے بڑے پیمانے پر مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرنے، مسابقتی امتحانات میں حصہ لینے کے خواہش مند نوجوانوں کو مفت کوچنگ فراہم کرنے، بے روزگار نوجوانوں کے لیے کیریئر کونسلنگ کا اہتمام کرنے اور ضرورت مندوں میں گھریلو استعمال کی اشیا تقسیم کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی فوج نے اپنے آپ کو کشمیر اور کشمریوں کے ’سچا دوست اور ہمدرد‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے ایسی اختراعی سرگرمیاں انجام دینا شروع کر دی ہیں جن کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہے۔
بھارتی فوج ان تمام ’کشمیر دوست‘ سرگرمیوں یا اقدامات کی سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کر رہی ہے۔ نیز ان کو اجاگر کرنے اور دنیا کو ’بھارتی فوج کے اصل اور ہمدرد چہرے‘ سے واقف کروانے کے لیے بھارتی میڈیا کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں سری نگر میں قائم بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر دو ایسی ٹویٹس نمودار ہوئیں، جنہیں نہ صرف بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا بلکہ ان پوسٹس میں فوج کے جن ’اختراعات پر مبنی اقدامات‘ کو اجاگر کیا گیا تھا، انہیں بعض کشمیریوں نے سراہا بھی۔
ان میں سے ایک ٹویٹ ’ستارہ جرات‘ پانے والے پاکستانی فوج کے میجر محمد شبیر خان سے متعلق تھی جنہیں پانچ مئی 1972 کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کنٹرول لائن کے نوگام سیکٹر میں بھارتی فوج کے نو سکھ رجمنٹ نے ’جوابی حملے‘ میں ہلاک کیا تھا۔
بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی روایات اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے نوگام سیکٹر میں مدفون میجر خان کی خستہ حال قبر کی مرمت کی ہے۔
ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک ہلاک فوجی، اس سے قطع نظر کہ وہ کس ملک سے تعلق رکھتا ہے، موت کے بعد عزت و وقار کا مستحق ہوتا ہے اور بھارتی فوج کا یہی عقیدہ ہے۔
دوسری ٹویٹ وسطی ضلع بڈگام کے علاقے چاڈورہ میں 16 اکتوبر کو ہونے والی ایک مسلح جھڑپ سے متعلق تھی جس کے دوران ایک مقامی عسکریت پسند نے بھارتی فوج کے ایک میجر کی یقین دہانی پر خود کو فورسز کے حوالے کر دیا تھا۔
بھارتی فوج نے مذکورہ عسکریت پسند، جس نے محض کچھ دن پہلے ہی بندوق اٹھائی تھی، کی جانب سے خود کو فورسز کے حوالے کرنے کے واقعے کی ویڈیو ٹوئٹر پر پوسٹ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی فوج کشمیری نوجوانوں کی ’دوست اور ہمدرد‘ ہے اور یہاں تک کہ اسلحہ اٹھانے والے نوجوانوں کو بھی مارنا نہیں چاہتی۔
اس جھڑپ کے چند روز بعد شمالی ضلع بارہ مولہ کے علاقے سوپور میں ایک عسکریت پسند مخالف آپریشن کے دوران بھارتی فوج اور مقامی پولیس نے والدین کی مدد سے دو نوجوانوں کو فورسز کے حوالے کرنے پر آمادہ کیا۔ اس واقعے کی ویڈیوز بھی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خوب گردش کروائی گئیں۔
قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں بھارتی فوج نے جنوبی ضلع اننت ناگ کے ڈورو علاقے میں ’ویمن کرکٹ لیگ‘ کا اہتمام کیا جس میں 70 خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
اس کرکٹ لیگ کی وسیع تشہیر کے لیے بھارت کے سابق کرکٹرز سچن تندولکر اور عرفان پٹھان کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر چلائی گئیں۔
تاہم بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری نوجوانوں کے لیے بڑے پیمانے پر کھیل کے مقابلوں کا انعقاد کرنے یا انہیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے، نیز اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے ’اختراعی سرگرمیاں‘ انجام دینے کا سلسلہ ایک ایسے وقت میں تیز یا شروع ہوا ہے جب اسے ضلع شوپیاں میں ایک مبینہ فرضی جھڑپ میں ’تین بے گناہ نوجوانوں‘ کو ہلاک کرنے کے سنگین جرم کے الزام کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج نے 18 جولائی کو اپنے بیان میں جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم اس ’فرضی‘ جھڑپ کے تین ہفتے بعد شوپیاں میں لاپتہ ہونے والے راجوری کے تین نوجوان مزدوروں کے والدین نے لاشوں کی تصویریں دیکھ کر ان کی شناخت کی تھی۔
بعد ازاں بھارتی فوج نے اپنے ایک ’اعترافی بیان‘ میں کہا تھا کہ مجاز انضباطی اتھارٹی نے بادی النظر میں جھڑپ میں تین نوجوانوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انضباطی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
کشمیر کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی فوج یہ سرگرمیاں گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ’آپریشن سدبھاونا‘ کے تحت انجام دیتی آئی ہے تاہم ان میں اچانک تیزی لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کے علاوہ اپنے آپ کو کشمیریوں کے ’دوست اور ہمدرد‘ کے طور پر پیش کرنے میں مصروف عمل ہو چکی ہے۔
بھارتی فوج نے کشمیر میں ’آپریشن سدبھاونا‘ کے تحت اب تک ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے ایک بڑا حصہ ایسے دیہی علاقوں میں خرچ کیا گیا ہے، جن میں عسکریت پسند بڑی تعداد میں سرگرم تھے۔
بھارتی فوج کو کشمیر میں ’آپریشن سدبھاونا‘ کے تحت اس طرح کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے بھارت کے مختلف تجارتی و صنعتی اداروں سے بھی مدد مل رہی ہے۔
’مقصد پروپیگنڈا ہے‘
انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بھارتی فوج کی ان تمام سرگرمیوں کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اس نیت سے انجام نہیں دی جاتیں کہ لوگوں کی مدد ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس طرح کی سرگرمیاں انجام دینا فوج کا کام ہی نہیں ہے۔ یہ تو حکومت کا کام ہے۔ غریب لوگوں کی مدد کرنے کے لیے حکومت ہے۔ فوج نئی دہلی میں تو ایسے کام نہیں کرتی، پھر یہاں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
خرم پرویز کے مطابق کشمیر میں جب بھی فوج کے خلاف آواز اٹھی ہے تو اس نے اس طرح کی سرگرمیاں انجام دے کر ان کی خوب تشہیر کروائی ہے۔
’جب یہاں پتھری بل اور مژھل فرضی جھڑپوں میں فوج کا نام سامنے آیا تو تب بھی انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ جو اپنے حساب سے ’اچھے کام‘ کرتے ہیں ان کو اجاگر کیا جائے۔‘
خرم پرویز کا کہنا تھا کہ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرنا، سکول کھولنا، بچوں کو بھارت درشن پر لے جانا وغیرہ بھارتی فوج کے کشمیر میں پرانے حربے ہیں۔
ان کے مطابق: ’فوج کا یہاں پر آپریشن سدبھاونا بہت برسوں سے چل رہا ہے۔ اس آپریشن کے تحت فوج کئی جگہوں پر سکول چلاتی تھی۔ یہ سری نگر میں ایک یتیم خانہ بھی چلاتے تھے جبکہ بچوں کو بھارت درشن پر لے جاتے تھے۔ دور دراز علاقوں میں لوگوں میں ریڈیو سیٹ تقسیم کرتے تھے۔ کبھی کبھی لوگوں کو افطار کے لیے بلاتے تھے۔ یہ ان کے پرانے حربے ہیں۔ یہ یہاں پر گاجر اور چھری کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔‘
تاہم خرم پرویز کے مطابق کبھی بھارتی فوج اپنی سرگرمیوں کی بہت زیادہ تشہیر کرتی ہے تو کبھی یہ سرگرمیاں بالکل خاموشی سے انجام دی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا: ’آج کل ان سرگرمیوں کی تشہیر اس لیے زیادہ کروائی جاتی ہے تاکہ فوج کو اچھی نظر سے دیکھا جائے۔‘
بھارتی فوج کا بیانیہ
انڈپینڈنٹ اردو نے جب سری نگر میں تعینات بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا سے رابطہ کرکے ان سے فوج کی کشمیر میں ’عوام دوست‘ سرگرمیوں کے مقاصد اور ضرورت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تحریری طور پر سوالات مانگے۔
تاہم یہ رپورٹ فائل کیے جانے تک ان کی جانب سے تحریری سوالات کے جواب موصول نہیں ہوئے تھے۔ اگر جوابات موصول ہوگئے تو ان کو اس رپورٹ میں شامل کر لیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اپنی غیر رسمی گفتگو میں کرنل راجیش کالیا نے کہا کہ بھارتی فوج کا کشمیر میں ’آپریشن سدبھاونا‘ کے ذریعے لوگوں سے جڑنے کا یہ سلسلہ کافی وقت سے جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرنا، دوروں کا اہتمام کرانا، بزرگوں سے ملنا اس آپریشن کے اہم جزو ہیں۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے یہ سرگرمیاں رک گئی تھیں لیکن معمول کی زندگی بحال ہونے کے ساتھ ہی ان سرگرمیوں کو بھی بحال کیا گیا ہے۔‘
سری نگر میں قائم بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عطا حسنین کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوج کو ’آپریشن سدبھاونا‘ کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بقول یہ سکیم فوج کو مقامی لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔
عطا حسنین نے ’دا نیو انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’فوج نے 1997 میں آپریشن سدبھاونا نامی ایک سکیم متعارف کی۔ اس کے تحت پہلے چار اہم شعبوں تعلیم، طبی امداد، چھوٹے پیمانے کے بنیادی انفراسٹرکچر اور قومی اتحاد پر توجہ مرکوز کی گئی اور بعد ازاں مزید شعبے جیسے خواتین کی بااختیاری کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔‘
انہوں نے لکھا: ’اس سکیم کے تحت جموں و کشمیر میں 43 گڈ ول سکول قائم کیے گئے جن میں متاثرہ آبادی سے تعلق رکھنے والے بچے معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔‘
عطا حسنین کے مطابق: ’پانچ اگست 2019 کے بعد بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کشمیریوں کی بہبود کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کا جواب پتھراؤ یا عسکریت پسندوں کی حمایت کر کے دیتے ہیں۔ یہ فکر نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ ایک شورش زدہ خطہ کے سماجی امور کو نہ سمجھنے کی عکاسی کرتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بھارتی حکومت ایک طرف جہاں مربوط حکمت عملی کے تحت انحرافی نیٹ ورکس کو طشت از بام کرکے ختم کر رہی ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ دل اور دماغ جیتنے کی پالیسی پر بھی سٹریٹجک سطح پر کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
بقول عطا حسنین: ’فوج کو آپریشن سدبھاونا سے دستبردار ہونے کے بارے میں کبھی سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس کی مدد سے لوگوں اور عوام کے درمیان توازن بر قرار رہا ہے۔‘