آرمینیا اور آذربائیجان کے حکام کے درمیان نگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر لڑائی کے خاتمے کے لیے واشنگٹن میں مذکرات کے ایک دن بعد ہی ہفتے کو دونوں ممالک کی فوجوں میں تازہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں میں نگورنو کاراباخ کے اندر اور باہر لڑائی ہو رہی ہے۔ مقامی حکام نے آذربائیجانی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ وہ علاقے کے سب سے بڑی شہر سٹپاناکرٹ کی عمارتوں پر گولہ باری کر رہی ہیں جبکہ آذربائیجان نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جمعے کو آذربائیجان اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً ایک ماہ سے جاری جنگ بند کروانے کی تازہ کوشش ہے۔
روسی صدر ولادیمیرپوتن کے مطابق لڑائی میں اب تک پانچ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
اس سے پہلے روس نے دونوں ملکوں میں دو بار جنگ بندی کروائی جو قائم نہ رہ سکی جس کے نگورنوکاراباخ پر 27 ستمبر سے شروع ہونے والی لڑائی فوری طور پر ختم ہونے کا امکان پہلے ہی کم ہو چکا ہے۔
آذربائیجان کی فورسز نے کہا ہے کہ انہیں زمین پر کامیابی ملی ہے جن میں ایران کے ساتھ سرحد کا مکمل کنٹرول بھی شامل ہے۔ آرمینیا نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ نگورنوکاراباخ کی لسانی آرمینیائی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی فوجوں نے آذبائیجان کے حملے پسپا کر دیے ہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے فرانس کے اخبار ’لے فگارو‘ کو بتایا ہے کہ ان کا ملک مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر تیار ہے لیکن انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مسلسل لڑائی کی وجہ آرمینیا کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں ہیں۔
صدر علیئف نے کہا ہے کہ ’ہم آج ہی جنگ روکنے کے لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے آرمینیا نے جنگ بندی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی ہے۔ اگر وہ نہ رکے تو ہم تمام مقبوضہ علاقے آزاد کروانے کے آخری مقصد تک جائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا ہے کہ مسئلے پر اچھی پیشرفت ہو رہی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا انہوں نے دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے بات کی ہے۔ عالمی طاقتیں وہ بڑی جنگ روکنا چاہتی ہیں جس میں ترکی بھی شامل ہو جائے جس نے آذربائیجان اور روس کی کھل کر حمایت کی ہے۔
واشنگٹن میں مذاکرات سے تھوڑی دیر پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول میں رپورٹروں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ماسکو اور انقرہ لڑائی بند کروانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی لڑائی کی وجہ سے ترکی کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مزید دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔
پومپیو نے جمعے کے مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ آگے کی طرف لے جانے والا درست راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان نے کہا ہے کہ انہیں اس مرحلے پر لڑائی کا کوئی سفارتی حل نظر نہیں آیا۔
صدر علیئف نے بھی پرامن حل کو بہت مشکل قرار دیا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1991 سے 1994 تک جاری رہنے والی لڑائی میں 30 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ آرمینیا نگورنوکاراباخ کو تاریخی طور پر اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ آذربائیجان کا مؤقف ہے کہ آرمینیا نے علاقے پر غیرقانونی قبضہ کیا اس لیے اس کا کنٹرول اسے واپس ملنا چاہیے۔