ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018 کے دوران پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ایچ آر سی پی نے سوموار کے روز اسلام آباد میں 2018 میں انسانی حقوق کی حالت کے نام سے سالانہ رپورٹ جاری کی۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مجموعی طور پر 620 خواتین اغوا کی گئیں اور سب سے زیادہ واقعات (587) پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین کے باوجود عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
2018 کے دوران 70 فیصد خواتین اور لڑکیاں زراعت کے شعبہ سے وابستہ رہیں جن میں سے 60 فیصد کو معاوضہ نہیں دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا صنفی مساوات کے حوالہ سے پاکستان ایک مرتبہ پھر بدترین ملک رہا۔
عزت کے نام پر قتل، تیزاب کے حملے، نوکریوں کے حوالہ سے معاشرتی پابندیاں، عدم مساوات، غربت اور زبردستی کی شادیاں ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی میں خواتین سے متعلق ایک دھندلی تصویر ابھرتی ہے۔
البتہ رپورٹ میں ان چند اچھے اقدامات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جن سے خواتین کی حالت میں بہتری آ سکتی ہے۔
ان میں بعض قوانین کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی، اور پارلیمنٹ میں خواتین کا منتخب ہونا ہے۔
رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغواٗ اور زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے واقعات کا ذکر بھی موجود ہے۔
ایچ آر سی پی کے کونسل رکن جوزف فرانسس نے بتایا کہ صرف گذشتہ ہفتہ کے دوران کم از کم چار غیر مسلم لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا۔
انہوں نے کہا: پنجاب انجلینا نامی ایک کرسچن شادی شدہ عورت کو اغواٗ کیا گیا۔ مذہب تبدیل کروانے کے بعد اس کی شادی کر دی گئی۔ اور نکاح نامہ میں اسے کنواری ظاہر کیا گیا۔
جوزف فرانسس نے ایسی قانون سازی کا مطالبہ کیا جس میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی ہو۔
رپورٹ میں اظہار رائے پر بے پناہ پابندی خصوصاً عام انتخابات کے دوران پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دھمکیوں اور ڈر کی فضا میں میڈیا کوریج اور خصوصا خفیہ اداروں اور عسکریت پسندوں کے خلاف خبروں کو رکوایا گیا۔
صحافیوں کو سیلف سنسرشپ کو عادت بنانے پر مجبور کیا گیا۔ اور کیبل آپریٹر کمپنیوں کی نشریات روکی گئی۔
معروف صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ صحافیوں کو سیلف سنسرشپ پر مجبور کرنا نہایت خطرناک کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اخبار کے چھپنے سے پہلے کی جانے والی سنسرشپ سے بھی زیادہ بری چیز ہے۔
ان کا خیال تھا: اس طرح صحافی صرف اس لیے نہیں لکھ پاتا کہ وہ ڈر رہا ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے دوران جرائم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
عزت سے متعلق مجموعی طور پر 316 جرائم رپورٹ کیے گئے۔ جن میں زیادہ خواتین کے خلاف تھے۔
اسی طرح تیزاب پھینکنے کے 67 واقعات پیش آئے۔ جبکہ 129 خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنیں۔
اسی طرح 86بچوں کو تعلیمی اداروں میں مارا پیٹا گیا۔
رپورٹ میں سیاستدانوں اور دوسرے لوگوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالے جانے پر بھی تنقید کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ سال کے اختتام پر ڈھائی سو سے زیادہ عدالتوں میں ایک کروڑ نوے لاکھ کیسز پڑے تھے۔
قومی احتساب بیورو نے کرپشن کے 440 ریفرنسز داخل کیے اور 503 ملزموں کو گرفتار کیا۔
2018 میں چودہ افراد کی موت کی سزا پر عمل درٓمد کیا گیا۔
1987 میں قائم ہونے والا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یا ایچ آر سی پی ایک آزاد غیر حکومتی اور غیر سیاسی ادارہ ہےجو پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوری ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے پر ایچ آر سی پی کو دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔