تیز ترین سلوکی کتوں کی افزائش کے لیے مشہور شام کا ایک گاؤں

الدرباسیہ کے محمد درباس جنگ سے پہلے ہر سال سو سے 150 کتے برآمد کرتے تھے مگر حالیہ سالوں میں یہ تعداد کم ہو کر 20 رہ گئی ہے۔

گرے ہاونڈ نسل کے کتوں کے قریبی رشتہ دار سلوکی کتوں کو مشرق وسطیٰ میں ہزاروں سالوں سے شکار کے لیے استعمال کیا جاتا آیا ہے۔ یہ کتوں کی تیز ترین نسلوں میں شامل ہیں۔ 

قیدم مصر میں سلوکی کتوں کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ انہیں اکثر شاہی خاندان کے افراد پالتے تھے اور انہیں موت کے بعد حنوط بھی کیا جاتا تھا۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق شام کے شمال مشرقی کرد علاقے میں گاؤں الدرباسیہ ان کتوں کی افزائش اور خلیجی ممالک برآمد کے لیے مشہور ہے خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور قطر میں جہاں صحرا میں کتوں کی دوڑ بہت مشہور ہے۔  

تاہم 2011 سے جاری شام میں خانہ جنگی نے ایک زمانے میں اس منافع بخش بزنس کو بہت متاثر کیا ہے اور اس سال کی کرونا (کورونا) وائرس کی وبا نے تجارت اور سفر اور بھی متاثر کردیا ہے۔ 

15 سالوں سے کتوں کی افززائش کا کام کرنے والے 27 سالہ محمد درباس نے بتایا: ’خانہ جنگی سے پہلے خلیجی ممالک سے لوگ یہاں نسلی کتوں کی تلاش میں آتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگ اور وبا کی وجہ سے کاروبار میں کمی کے باوجود درباس اب بھی اپنے سو کتوں کو فٹ رکھتے ہیں۔ 

ان کے کتوں میں سے کچھ کے کان چھوٹے کیے گئے ہیں جبکہ کچھ کی ٹانگوں کو مہندی سے نارنجی کیا گیا ہے۔ 

کتوں کی رفتار اور قوت برداشت کو بڑھانے کے لیے درباس اپنی موٹر بائیک پر بیٹھ کر گاؤں کے باہر صحرا نما زمینوں پر تیز رفتار میں چل پڑتے ہیں اور کتے ان کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ جن کتوں کی وہ افزائش کرتے ہیں وہ بلیک مارکیٹ کے ریٹوں ہر 10 سے 40 لاکھ شامی پاؤنڈ یا چار سو سے 16 سو ڈالر میں بکتے ہیں۔ 

جنگ سے پہلے وہ ہر سال سو سے 150 کتے برآمد کرتے تھے مگر حالیہ سالوں میں یہ تعداد کم ہو کر 20 رہ گئی ہے۔ 

70 سالہ شکری موسیٰ کے مطابق الدرباسیہ میں کچھ خاندانوں نے 20 سال پہلے سلوکی کتوں کی افزائش شروع کی۔ 

اپنے پوتے پوتیوں کے درمیان بیٹھے  شکری موسیٰ نے بتایا: ’پرانے وقتوں میں کرد صرف انہیں شکار کے لیے استعمال کرتے تھے مگر اب یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا بہ سے لوگ اس کاروبار سے اب بھی خوش نہیں۔ ’کبھی کبھی گاؤں والے ناراض ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی مرغیاں کھا جاتے ہیں۔‘
 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا