فرض کریں آپ یورپ کی سیر کو نکلے ہیں۔ شہر شہر گھومتے ہوئے اب فرانس کے دارالحکومت پیرس پہنچ چکے ہیں۔ آپ کا پیاس سے برا حال ہے۔ آپ پانی خریدنا چاہتے ہیں پر آپ کو اپنے نزدیک کوئی سٹور نظر نہیں آ رہا۔
آپ سٹور کی تلاش میں ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ بالآخر آپ کو ایک سٹور نظر آتا ہے، آپ اس کی طرف بھاگتے ہیں، دروازے کے قریب پہنچ کر آپ کو اس کے اوپر لگا ایک نوٹس نظر آتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ آپ اپنی پیاس کو بجھانے کے لیے پھر بھی دکان میں داخل ہوتے ہیں، چپ چاپ پانی کی بوتل اٹھاتے ہیں، بل ادا کرتے ہیں اور باہر نکل آتے ہیں۔ آپ کی اس لمحے کیا کیفیت ہو گی؟
شاید بالکل ویسی جیسی ہمارے ملک میں احمدیوں کی اپنے خلاف نوٹس دیکھ کر ہوتی ہے۔ شاید آپ ایک دکاندار ہوں اور آپ نے بھی اپنی دکان کے باہر احمدیوں کے لیے ایسا ہی کوئی نوٹس لگایا ہوا ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے یہ نوٹس بس لگانے کی حد تک ہوتے ہیں۔ ہم نے آج تک کسی دکان دار کو دکان میں داخل ہونے والے لوگوں کا ایمان جانچتے نہیں دیکھا یعنی وہ نوٹس احمدیوں سے زیادہ ان کی اپنی کمیونٹی کے لیے ہوتا ہے کہ لو میں نے بھی نوٹس لگا دیا، اب میرے ایمان پر بھی ٹھپہ لگا دو اور مجھے یہاں سکون سے کاروبار کرنے دو۔
آج کل پورا ملک دنیا بھر میں ہونے والے اسلاموفوبیا کی بات کر رہا ہے۔ ہم کہتے ہیں اپنے ملک میں موجود احمدیت فوبیا، شعیت فوبیا، مسیحت فوبیا، ہندوئت فوبیا پر بھی تھوڑی بات کر لو۔ کچھ ہفتے پہلے ایک نجی چینل پر ’ہندو کی میا مر گئی‘ کا نعرہ جس جوش سے لگایا گیا اسی کو دیکھ لیں اور پھر اس پر ہندو کمیونٹی کا ردِ عمل بھی دیکھ لیں۔ شاید آپ کو امن کا مطلب سمجھ آ جائے۔
آئے روز نو عمر ہندو یا مسیحی لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے کی خبریں آتی ہیں۔ ان کی صرف بیٹیاں ہی اسلام قبول کرتی ہیں، بیٹے اس نعمت سے ابھی تک محروم ہیں۔ یہ لڑکیاں دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے سے تیس چالیس سال بڑے آدمی سے بیاہ رچا لیتی ہیں۔ کیا آپ نے ایسا کہیں اور ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ اپنی بیٹی کی شادی اس سے تیس یا چالیس سال بڑے آدمی سے کریں گے؟ وہ اس شخص سے محبت کا دعویٰ کرے کیا تب بھی کریں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ نے خود کتنی بار قرآن پورا پڑھا ہے؟ ہم جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے پر اکڑتے ہیں ہمارے گھر میں رکھا قرآن پورا سال مٹی سے اٹا رہتا ہے۔ ہم رمضان میں اسے نکالتے ہیں، اس پر جمی مٹی جھاڑتے ہیں اور پورا مہینہ سوتے جاگتے اس میں لکھی عربی دہراتے رہتے ہیں۔ مہینہ ختم ہوتے ہی قرآن کو اسی طرح لپیٹ کر الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھ دیتے ہیں۔
ہم اتنے سالوں میں بس اتنا ہی قرآن پڑھ سکے ہیں، وہ ننھی منی بچیاں کیسے پورا قرآن پڑھ گئیں اور پھر اسے سمجھ بھی گئیں اور ایسا سمجھیں کہ انہیں اپنی بھلائی اپنے سے تیس چالیس سال بڑے شخص کے عقد میں ہی نظر آئی؟
سوال تو سارے پوچھنے لائق ہیں پر جو پوچھے وہ اپنی گردن کٹوائے۔ اب یہی سوال دیکھ لیں۔ کہیں سے صدا اٹھی فرانس کا بائیکاٹ کرو۔ اس کی معیشت کو روند کر رکھ دو۔ ہم نے لبیک کہتے ہوئے اپنی دکانوں میں رکھی اکا دکا فرانسیسی مصنوعات اکٹھی کیں، ان پر ناٹ فار سیل کا نوٹس لگایا اور دکان کے عین درمیان سجا کر رکھ دیا۔ سوشل میڈیا پرتمام دکانداروں نے ایسی تصاویر اپلوڈ کیں۔ چھوٹی سی چھوٹی دکان اور بڑے سے بڑے سٹور نے ایسے ہی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ ذرا سیٹھ صاحب سے پوچھیں کہ جناب ان چیزوں کو سجا کر کیوں رکھا ہے، کوڑے دان میں کیوں نہیں پھینکتے؟ جب بیچنا نہیں تو رکھنے کا کیا فائدہ۔
جناب آپ بھی یہیں ہیں اور ہم بھی یہیں ہیں، دو چار ہفتوں کی بات ہے، یہی چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھی ہوں گی اور یہی لوگ اپنے ہاتھوں سے انہیں پیک کر کے آپ کو بیچ رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ان پر سیل بھی لگی ہو۔
خیر، انہیں بھی چھوڑیں، اپنا بتائیں، کل کو فرانس کا ویزہ ملا تو فوراً ٹکٹ نہیں کٹائیں گے؟ یا شادی کے بعد آئفل ٹاور دیکھنے نہیں جائیں گے؟
جائیں گے نا؟
تو جناب یہ ہے ہماری منافقت کا حال۔ جب اپنا یہ حال ہو تو دوسروں کو لمبے لمبے لیکچر نہیں دیا کرتے۔ اور یاد رکھیں پہلے اپنا گھر صاف کرتے ہیں، پھر محلہ صاف کرتے ہیں، پھر محلے سے باہر کی صفائی کرتے ہیں۔ یہاں تو لوگوں کے دل تک میلے ہیں۔ پہلے اپنے دل تو صاف کر لو، اپنے ہم وطنوں کو اپنے گلے تو لگا لو۔ پھر دنیا کو بتانا کہ امن کیا ہوتا ہے، بھائی چارہ کیا ہوتا ہے اور برداشت کیا ہوتی ہے۔ آئے بڑے دوسروں کو سبق سکھانے والے۔