ماضی کی اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم کی شناخت کا بنیادی ستون تاریخ ہوتی ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو اقوام میں زندگی کی روح پھونکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ادوار میں بھی رومیوں اور یونانیوں کا ذکر زندہ ہے۔
اگر شناخت کی بنیاد تاریخ ہے تو تاریخ کی بنیاد تاریخ سازی ہے۔ رومی اور یونانی تہذیبوں میں فلسفہ دانوں کے علاوہ تاریخ دانوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ہیروڈوٹس، تھیوسی ڈی ڈیذ، لیوی، ٹیسیٹس جیسے تاریخ دانوں کی وجہ سے رومی اور یونانی تہذیب کے اہم پہلو آج بھی زبان زد عام ہیں۔
اس زاویے سے اگر پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی معاشرہ اس تقاضے میں خاصہ بانجھ پن کا شکار ہے۔ اس وجہ سے آج بھی پاکستانی معاشرے میں تاریخ کا سوال کیا آئے تو صرف کم علمی پر مبنی بیان ملیں گے نہ کہ ایک مستند تاریخ کا حوالہ۔
تاریخ کی اہمیت کو زندہ رکھنے کے لیے ڈاکٹر مبارک علی، کے کے عزیز، خورشید کمال عزیز، جیسے نامور نام ہیں مگر اس کے باوجود پاکستانی معاشرہ تاریخ جیسے موضوع سے ناواقف نظر آتا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تاریخ کا سماجی اور قومی سے زیادہ سیاسی استعمال اور استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری تاریخ جامع اور حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آج تک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شناخت سیاسی مفادات کے آئینے سے کی جاتی ہے، کسی کے لیے جناح سیکولر، کسی کے لیے مذہبی تو کسی کے لیے قوم پرست ہیں۔
تاریخ سے محرومیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اپنی تاریخ کے آغاز کا کوئی نقطہ بیان کرتی ہے جس سے وہ اپنی شناخت کا نقشہ کھینچتی ہے۔ پاکستانی معاشرے سے ابھی تک وہ نقطہ ہی نہیں کھینچا گیا۔ ابھی تک قوم اس کشمکش میں ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا آغاز کہاں سے کیا جائے یا ہماری شناخت کس عہد سے جوڑی جائے۔
جب جی چاہتا ہے تو اس شناخت کو چودہ سو سال پہلے اسلام کے آغاز پہ لے جایا جاتا ہے یا اکثر اس کو محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے جوڑا جاتا ہے، تو کبھی مغلیہ دور میں تاریخ کو تراشا گیا ہے یا 1857 کے بعد۔ تہتر سال گزرنے کے باوجود پاکستان تاریخ جیسے مجسمے سے محروم نظر آتا ہے۔
انتہاپسند رویوں اور سوچ کی وجہ سے وادی سندھ جیسی تاریخ کو تسلیم کرنا گناہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ تاریخ کو لے کر بڑی سوچ تقسیم نظر آتی ہے۔ اسی لیے ہم تاریخ کو مذہبی نظر سے دیکھنے آنے کی خواہش مند ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تاریخ کو مسخ کرنے کا رواج بھی خاصا عام ہے۔ کبھی سیاسی بیانات تو کبھی ریاستی مورخوں نے تاریخ کو مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔
ایسا نہیں ہے کہ کبھی کوشش نہیں کی گئی 1970 وحید الزمان، ڈائریکٹر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ہیریٹیج اینڈ کلچر، نے پاکستان کی کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ لکھوانے کا فیصلہ کیا۔ آگے چل کر موضوعات منتخب کر کے کام مورخوں کے سپرد کیا گیا لیکن اہداف حاصل نہ ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس امر میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ تاریخ کا گھونٹ سچ کی کڑواہٹ کے ساتھ آتا ہے۔ کیا پاکستانی معاشرہ سچ کی کڑواہٹ سہہ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر پاکستانی تاریخ کا آغاز 1947 سے بھی کیا جائے تب بھی کیا تاریخ اس کی حقیقی روح میں بیان کی جائے گی یا اس کو سیاسی مفادات کی گرد میں رکھا جائے گا۔
اس کے برعکس اگر برادر ملک ترکی کی جانب دیکھا جائے تو ترک معاشرے نے تاریخ کو کشادگی سے تسلیم کیا اور اس سے سیکھا بھی۔ اس کی ایک مجموعی تاریخ ہے جس نے قومی شناخت ڈھالی۔ غور کرنے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترک تاریخ کو لے کر اپنے زاویے میں شفاف ہیں۔
انہوں نے تحریک قوم کے ساتھ منسلک کیا نہ کہ کسی سیاسی اور اداری مفادات کے ساتھ۔ پاکستانی معاشرے کو مجموعی طور پر اپنی تاریخ کو لے کر سنجیدگی کا رویہ اپنانا ہوگا، علاوہ ازیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو بھی قوم تاریخ کے ساتھ ساتھ ساتھ منسلک نہیں ہوتی وہ صرف تاریک ادوار کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ میں اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ ہماری قومی تاریخ ہندوستانی ہے یا اسلامی تاریخ ہے۔ اسلامی تاریخ تو ہمارے سوا 56 ممالک کی بھی اسلامی ہے پر ہر کسی کی قومی شناخت مختلف ہے۔ دنیا کی تہذیب اس موڑ پر کھڑ ی ہے جہاں قومی شناخت قوم کی زندگی کا اہم پہلو ہے۔
عالمگیریت کا زور وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑ رہا ہے اور قومیں انفرادی حیثیت سے ابھر رہی ہیں۔ اس امر میں حکام بالا اور پاکستانی معاشرے کو قوم سازی پر اشد توجہ دینے کی ضرورت ہے۔