پاکستان میں کوئی بھی کھیل ہو، کپتانوں کی رخصتی ہمیشہ توہین آمیز انداز میں ہوتی ہے۔
کرکٹ عوام کا پسندیدہ کھیل ہے اور گلی محلوں میں کھیلے جانے کے باعث سب کی اس کھیل کی باریکیوں اور ہر پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ملک میں کرکٹ کے نظم ونسق کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ اس کھیل کے انتظام و انصرام میں جس قدر من مانی کرتا ہے، وہ خوش نصیب ہے کہ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
قومی ٹیم کے کپتان جس انداز میں لائے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کسی سلطنت کے ولی عہد کی تاج پوشی کی جا رہی ہے لیکن جب ان کو سبک دوش کیا جاتا ہے تو توہین آمیز انداز میں۔ نہ کوئی وجہ بتائی جاتی ہے اور نہ خدمات کا اعتراف۔ ان کی علیحدگی سے پہلے ہی سارے عالم میں خبر نشر کردی جاتی ہے اور پھر سوشل میڈیا پر اس کپتان کی برائیاں اس طرح بیان کی جاتی ہیں جیسے روایتی ساس اپنی نو بیاہتا بہو کی کرتی ہے۔
کچھ سابق کرکٹرز تو شاید سارا دن بس کپتانوں میں کیڑے ڈھونڈتے رہتے ہیں، اتنی محنت اگر وہ کرونا کے وائرس پر کرتے تو اب تک ویکسین بنا لیتے۔
اظہر علی کو جب کپتان بنایا گیا تو اتنے قصیدے پڑھے گئے کہ گمان ہوتا تھا کہ ان سے اچھا کوئی کپتان نہیں اور اب سر پر تاج رکھے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ان کی رخصتی اسی انداز میں شروع ہوئی جیسے ان کے پیش رو سرفراز احمد کی ہوئی تھی۔
سرفراز نے جس دن اپنا آخری میچ بحیثیت کپتان کھیلا اسی دن ان کے اعزاز میں ایک توہین آمیز ٹوئٹ کی گئی اور پھر پی سی بی کے ایک عہدے دار نے سرفراز کے آؤٹ ہونے پر بھنگڑا ڈالا۔ سرفراز تو خیر کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اس لیے ٹوئٹر پر بہت کچھ لطیف پیرائے میں کہہ گئے تھے لیکن اظہر علی تو بے زبان انسان ہیں کچھ کہیں گے اور نہ ظاہر کریں گے۔
خاموشی سے اسی طرح چلے جائیں گے جیسے ایک دفعہ پہلے بھی کپتانی چھوڑ چکے ہیں۔ اظہر علی کو تبدیل کرنے کی کوئی واضح وجہ نظر نہیں آتی۔ اگر ان کی کپتانی ٹیسٹ میچوں میں شکست کے باعث ختم ہو رہی ہےتو پھر یہ بھی دیکھ لیں وہ کس ٹیم سے کہاں ہارے ہیں۔
آسٹریلیا سے ہوم گراؤنڈ پر ہر ٹیم ہار جاتی ہے، بھارت جیسی مضبوط ٹیم بھی شکست کھا جاتی ہے تو پاکستانی ٹیم کیا ہے؟ ٹیم کا حال دیکھیں۔ نہ کوئی اچھا اوپنر اور نہ کوئی خاص بولر، بس مڈل میں کچھ اچھی بیٹنگ لیکن وہ بھی کبھی اوپر کبھی نیچے۔
انگلینڈ کے خلاف بھی وہی کمزور سی ٹیم اور بدترین کارکردگی، ایسے میں اظہر علی کیا کریں۔ اگر بغور جائزہ لیں تو ایک سیریز وہ یک طرفہ ہارے جس میں پاکستان کی بیٹنگ لائن یکسر ناکام ہوگئی تھی لیکن دو سیریز وہ جیتے بھی اور یک طرفہ ہی جیتے تو حساب تو برابر ہی ہے لیکن انگلینڈ کی ایک سیریز شاید ان کی کپتانی کو لے ڈوبی جہاں وہ ایک ایسا میچ ہار گئے جو جیت سکتے تھے۔
لیکن ناقدین بھول جاتے ہیں کہ مانچسٹر ٹیسٹ میں پاکستان کی بولنگ ناکام ہوئی تھی۔ اظہر علی کی کپتانی سے رخصتی میں ان کی کارکردگی کو الزام دینا بھی مناسب نہیں کیونکہ وہ دوسرے بیٹسمین ہیں جنہوں نےانگلینڈ کے دورے پر سنچری بنائی، اگر احتساب کرنا ہے تو پھر سب کا ہونا چاہیے۔
پاکستان میں کپتانوں کی تبدیلی کا توہین آمیز طریقہ کار نیا نہیں بلکہ شروع سے یہی سلسلہ ہے اور کرکٹ کے ارباب اقتدار جب چاہیں کسی کو بھی بدل دیتے ہیں۔ کبھی فضل محمود کو اچانک ہٹا کر جاوید برکی کو بنا دیا جاتا ہے اور کبھی حنیف محمد کو توہین آمیزانداز میں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کپتان کا اعلان کرکے کچھ دن بعد واپس لے لیا گیا۔ 1976 کے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے پر انتخاب عالم کا اعلان ہوا لیکن کھلاڑیوں کے احتجاج پر دوبارہ مشتاق محمد کپتان بنا دیے گئے۔
ظہیرعباس کو1984 میں کپتان مقرر کیا گیا لیکن آسٹریلیا کے دورے کے دوران عمران خان کو پھر کپتان بنا دیا گیا۔ نوے کی دہائی میں تو کپتانی مذاق بن گئی تھی۔ کچھ پتہ نہیں چلتا تھا صبح کپتان کون ہوگا اور شام کو کون ہوگا۔ اس دور میں ایسے ایسے کپتان بن گئے جن کی ٹیم میں بھی جگہ نہیں بنتی تھی۔ ایک موجودہ کمنٹیٹر تو کپتان ایسے بنے کہ ان کی بیگم صاحبہ نے فون کرکے بتایا کہ ٹی وی پر آپ کی کپتانی کی خبر نشر ہو رہی ہے۔
یہ سارے ایمرجنسی کپتان جس طرح آئے تھے اسی اندازمیں کرسی سے اتار پھینکے گئے۔ کپتانوں کی روزانہ تبدیلی پر کسی نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ میں اتنی شرٹس نہیں بدلتا جتنے پاکستان کپتان۔ اب پھر کپتانی کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ بابر اعظم جو اس وقت دنیا کے سرکردہ بلے بازوں میں ہیں انھیں دو فارمیٹس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کا بھی کپتان مقرر کیا جا رہا ہے۔
بابر ایک سمجھ دار اور سلجھے ہوئے انسان ہیں، کرکٹ میں بہت جلد پختہ ہوگئے ہیں، کپتانی کے اسرار و رموز سمجھتے ہیں لیکن کیا ان کی کپتانی میں ایک شکست بھی ان کی بیٹنگ پر اثر نہیں ڈالے گی؟ کیا وہ نیوزی لینڈ کے مشکل دورے پر دوہرے دباؤ کا شکارنہیں ہوں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا وہ سینیئر کھلاڑیوں کا تعاون حاصل کرسکیں گے؟ یہ وہ سارے سوالات ہیں جن کے جواب دینے سے پی سی بی قاصر ہے۔ پی سی بی تو یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ اظہر علی کی کون سی خامی ہے جس پر انھیں ہٹایا جا رہا ہے۔ ایک ایسی ٹیم جس کی بیٹنگ اٹک اٹک کر چلتی ہو اور بولنگ وقت سے پہلے تھکان کا شکار ہوجاتی ہے، اس میں بابر اعظم کون سی نئی روح پھونک دیں گے۔
کیا ایک کپتان بدلنے سے پاکستان ٹیم کی ساری کمزوریاں دور ہو جائیں گی؟ سب کا جواب شاید نفی میں ہے لیکن جس تیزی سے بابر اعظم کو کل مختار بنایا جا رہا ہے وہی تیزی ہی کہیں ان کی تنزلی نہ بن جائے۔ ایک ایسا ہی تجربہ بھارتی ٹیم نے کیا تھا۔ سچن تندلکر کے عروج کے دور میں انھیں کپتان بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی ٹیم تو پے درپے شکستوں کے زخم سہتی ہی رہی مگر خود تندلکر کا اعتماد بھی مجروح ہوگیا، رنز بننا بند ہوگئے اور ستارہ زوال پذیرہونے لگا۔ اس وقت سے تندلکر نے کپتانی سے توبہ کرلی۔
بابر اعظم کے لیے کپتانی کوئی آسان ہدف نہیں ہوگا لیکن ان کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے اگر ٹیم کے دوسرے کھلاڑی بھی پرفارم کریں ورنہ بابر اعظم کو بھی شاید کچھ عرصے بعد رخصت کردیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر مان لیجیے کہ آپ کی جلد بازی نے ایک غیرمعمولی بلے باز ضائع کردیا۔
نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔