پاکستان کرکٹ میں صرف نور خان ایک ایسے شخص تھے جو ناصرف نوجوان ٹیلنٹ کے مداح تھے بلکہ اس کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔
کرکٹ لیجنڈ جاوید میاں داد کی صلاحیتوں کو اس وقت انہوں نے دیکھ لیا تھا جب جاوید اتنے نکھرے تھے اور نہ ابھرے تھے۔ کپتانی کا تاج نوجوان جاوید کے سر پر رکھنے کی جو ہمت نور خان نے کی تھی وہ شاید اس وقت کے صدر پاکستان ضیا الحق بھی نہ کرتے۔
نوجوانوں کو موقع دینے کی بات تو سب کرتے ہیں لیکن موقع دیتا کم ہی ہے۔۔۔ بس اپنے منظور نظر کھلاڑیوں کو کھلایا جاتا ہے۔
بیانات کی اس بہتی گنگا میں تازہ تازہ ہاتھ دھونے والے وقار یونس ہیں جنہوں نے نوجوان کھلاڑی حیدر علی کے ڈیبیو پر ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ایک فارمل بیان دیا کہ اگر حیدر جیسے دو چار بلے باز اور مل جائیں تو ٹیم سیٹ ہوجائے گی۔
وقار یونس اپنے وقت کے جتنے تیز بولر تھے اتنے ہی مزاج کے بھی تیز ہیں۔ کوچنگ کے شوقین بھی ہیں اور کھلاڑیوں پر اپنی کوچنگ میں رعب ڈالنے کے متمنی رہتے ہیں لیکن صرف ان کھلاڑیوں کی کوچنگ کرنا چاہتے ہیں جو قومی ٹیم میں ہیں۔
اگرچہ آج تک اپنے جیسا کوئی بولر نہیں تیار کرسکے ہیں لیکن کئی کھلاڑیوں کے کیرئیر ختم کرا دیے۔ شعیب اختر اور عبدالرزاق سمیت کئی بولرز اپنے کیرئیر کے وقت سے پہلے اختتام کی وجہ موصوف کو ٹھہراتے ہیں۔
وقار یونس اس وقت پاکستان کی قومی ٹیم کے بولنگ کوچ ہیں جہاں ان کے باس وہ مصباح الحق ہیں جو ان کی کوچنگ میں کھیلتے رہے ہیں۔
وقار یونس کے حالیہ بیان نے سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا نوجوان کھلاڑیوں کو کھلانے کی بات صرف بیانات کی حد تک ہے یا واقعی کچھ عملی طور پر بھی ہو رہا ہے۔
زمبابوے کے خلاف موجودہ سیریز میں بہت شور کرنے کے بعد بالآخر نوجوان حیدر علی اور موسی خان کو موقع دیا گیا اور دونوں نے راولپنڈی میں ڈیبیو کیا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ حیدر علی کو بھی اس وقت موقع دیا گیا جب حارث سہیل کھیلنے کے لیے موزوں نہیں تھے ورنہ آج بھی حیدر کو پانی کی بوتلیں اور تولیہ اٹھانا تھے۔
وقار صاحب آپ کو مخالف بلے باز کے عقب میں وکٹیں تو نظر آجاتی ہیں لیکن نوجوان ٹیلنٹ کیوں نظر نہیں آتا؟ کتنے ہی نوجوان کھلاڑی آپ کی نظر کرم کے منتظر ہیں!
آپ کو کراچی کے دانش عزیز، محمد اصغر، ملتان کے ذیشان اشرف، علی عمران، دادو کے زاہد محمود، بنوں کے خوشدل شاہ، حیدرآباد کے محمد حسنین نظر نہیں آتے جو اپنے ٹیلنٹ کی بدولت فرسٹ کلاس کرکٹ میں کارنامے سرانجام دے رہے ہیں لیکن قومی ٹیم تک رسائی نہیں؟
سمیع اسلم، حماد اعظم، شرجیل خان، احمد شہزاد اور تابش خان جیسے کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ صرف اس لیے ضائع ہوگیا کہ وہ آپ کی گڈ بک میں نہیں تھے۔
ان جیسے اور درجنوں نوجوان کھلاڑی ہیں جن کی کارکردگی کئی موجودہ قومی کھلاڑیوں سے بہت بہتر ہے لیکن ان کی آپ تک رسائی نہیں۔
گذشتہ ماہ ہونے والے نیشنل کپ سے پہلے آپ اور آپ کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ اس ٹورنامنٹ کے نمایاں کھلاڑیوں کو زمبابوے کے خلاف موقع دیا جائے گا لیکن جب ٹیم منتخب ہوئی تھی تو بقول محسن بھوپالی نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل کپ کے متعدد میچ ونرز سیلیکش کی رات سو نہ سکے اور رات بھر اختر شماری کے بعد صبح جب ٹیم کا اعلان سنا تو عقدہ کھلا کہ سب دعوے سراب کی مانند تھے۔
آج حیدر علی نے کھیل کے بعد آپ کو کچھ شرمندہ تو کیا ہوگا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا ہوگا کہ مجھے نظر انداز کرنے پر کچھ پچھتاوا بھی ہے یا نہیں؟
لاہور کے عبد اللہ شفیق بھی اسی انتظار میں ہیں کہ موقع ملے اور کچھ ہاتھ دکھا دوں اور شرمندہ کر دوں۔
زمبابوے کی کمزور اور بے ربط سی بولنگ کے خلاف بابر اعظم اور امام الحق نہیں بلکہ حیدر اور عبداللہ کو موقع دیجیے تاکہ آپ کی نوجوان کھلاڑیوں کو کھلانے کی آرزو کو عملی شکل مل سکے۔
ٹیم کو سست رفتار امام الحق اور عابد علی کی بجائے جدید طرز کی کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی مل سکیں جو ہر گیند پر سٹروک کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تیزی سے سکور کرسکیں۔ اب پرانے طرز کی کرکٹ باقی نہیں بچی ہے جب 250 بڑا سکور ہوتا تھا، اب تو 350 بھی کم پڑ جاتا ہے۔
کیا آپ پریشان نہیں کہ زمبابوے کی ناتجربہ کار بولنگ کے خلاف دونوں میچوں میں پاور پلے ٹیسٹ کرکٹ کی سست روی کا نمونہ پیش کر رہا تھا؟
بولنگ میں عمر خان، محمد اصغر اور حسنین کو آزمائیے جو پی ایس ایل میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں۔ اب عماد وسیم اور وہاب ریاض کو نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے رکھ لیجیے، وہ اپنا تجربہ وہاں دکھائیں۔ کمزور زمبابوے کے لیے تو شاہین شاہ کی بھی ضرورت نہیں انہیں بھی آرام دیا جاسکتا تھا اور عاکف جاوید کو کھلایا جاتا۔
بابر اعظم کی کپتانی کا آغاز سیریز میں جیت سے ہو چکا ہے اگر وہ ایک میچ نہ بھی کھیلیں تو کوئی ان سے کپتانی چھین نہیں سکتا لیکن آخری میچ میں ان کی جگہ اگر عبداللہ شفیق کھیلتے ہیں تو ممکن ہے پاکستان کو ایک اور قابل اعتماد بلے باز مل جائے۔
پاکستان میں کرکٹ کا انداز دوسرے ممالک سے جدا ہے۔ کرکٹ اب سکولوں سے شروع ہوتی ہے نہ اکیڈمیز سے بلکہ ٹیپ بال سے گلیوں میں ہوتی ہے جہاں ناکافی روشنی میں جب بلے باز تیز ٹیپ بال کو کھیلتے ہیں تو انہیں گیند پر نظر جمانے کی ایسی پریکٹس ہوجاتی ہے جس کا فائدہ وہ اعلیٰ درجے کی کرکٹ میں بھی اٹھاتے ہیں۔
شاید یہی وہ فن اور ہنر ہے جس کی بدولت حیدر علی اور عبداللہ شفیق جیسے سینکڑوں نوجوان زبردست بلے بازوں کے روپ میں ہیں اور دنیا داد دے رہی ہے لیکن اگر کوئی لاعلم ہے تو وہ ہے قومی ٹیم کی انتظامیہ!
نوٹ: اس مضمون میں دی جانے والی رائے صاحب مضمون کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔