’میری ماں نے دو مرتبہ خودکشی کی کوشش کی ہے۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں۔ امی کی ڈپریشن کی وجہ سے میرے بہن بھائی سخت متاثر ہوئے ہیں اور آج بھی ہم ان کو گھر پر اکيلا نہيں چھوڑسکتے۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ انہیں کسی بھی صورت تنہا مت چھوڑيں۔‘
کرونا کے دنوں ميں ميری ملاقات سوات سے تعلق رکھنے والی ثنا سے ہوئی جس کی ماں نے دو مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے-
ثنا کی والدہ کی کم عمری میں شادی ہوئی تھی اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ثنا کے مطابق ان کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوئیں۔
’ہم سب بہت چھوٹے تھے جب 2010 میں ہمارے ابو کا انتقال ہوا۔ چونکہ میرا کوئی چچا يا ماموں بھی نہیں سو ميری امی پہ ساری ذمہ داریاں آن پڑیں جن کی وجہ سے انہیں بہت سی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔‘
ثنا کے مطابق ان کی والدہ نے پہلی مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش تب کی جب ان کا دادی اماں کے ساتھ کسی چیز پر جھگڑا ہوا- اس واقع کے کئی سال بعد اسی طرح کی ايک معمولی سی گھریلوں چپقلِش کے نتیجے میں دادی کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
’پہلی مرتبہ امی نے گھر میں پڑی دو پتے (بیس عدد) گولیاں کھائی تھیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ بچ گئیں۔‘
ثنا کہتی ہیں کہ وہ اپنی ماں کا علاج ڈاکٹروں سے بھی کرواتی ہیں اور سالہا سال سے وہ دوائیاں کھاتی ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ تعویز اور دَم درود کے لیے بھی مولوی حضرات کے پاس لے جا چکی ہیں۔ جس دن میں نے ثنا کا انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا تو اس دن بھی وہ دو گھنٹے کی تاخیر سے آئی اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ وہ اپنی امی کو کسی بزرگ کے پاس لے کر گئی تھیں۔
ثنا کا انٹرویو لینے کے لیے مجھے اپنے ایک دوست کے دفتر کا انتخاب کرنا پڑا کیوںکہ وہ اپنے گھر اپنی امی کے سامنے ان کی بیماری کے متعلق کھل کر نہیں بول سکتی تھیں-
ثنا کے مطابق ان کی ماں ہر بات پر شک کرتی ہیں اور کسی کے منہ سے اپنی بيماری کے متعلق کچھ سُننا انہیں کافی ناگوار گزرتا ہے-
ثنا کا مزید کہنا ہے ان کی والدہ اکثر ان سے بغیر کسی وجہ کے ناراض ہو جاتی ہیں۔ بعد میں جب ان کی طبعیت ٹھیک ہوجاتی ہے تو وہ اپنی غلطی مان لیتی ہیں۔
’ہر بات پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اب اپنی امی کا پتہ ہے کہ وہ ذہنی بیمار ہیں اسی لیے ہم ان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتے۔ کبھی کبھی جب وہ ٹھیک ہوتی ہے تو وہ بھی یہ مانتی ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ صحیح نہیں کر رہی ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘
ثنا اگرچہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ کم عمری میں شادی سوات اور آس پاس کے علاقوں میں خودکشی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ان کے مطابق چھوٹی عمر میں پھر وہ لڑکی دوسرے گھر میں اتنی آسانی سے سیٹل نہیں ہوسکتی۔
’سسرال میں تو وہ ان لڑکیوں سے کام کاج چاہتے ہيں لیکن وہ بچیاں اتنی تجربہ کار نہیں ہوتیں کہ وہ سارے سسرال والوں کو خوش رکھ سکیں یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر ہو جاتی ہے اور وہ پھر اس زندگی میں خوش نہیں رہتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثنا اپنی ماں کی دوسری خودکشی کرنے کی کوشش کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دوسری مرتبہ انہوں نے چوہے مار دوائی کھائی تھی اور جلدی ہسپتال پہنچانے کی وجہ سے بچ گئیں۔
’دوسری مرتبہ پھر انہوں نے چوہے مار دوائی کھائی تھی، لیکن خوش قسمتی سے ہم نے جلد ہی انہیں سرکاری ہسپتال پہنچایا جہاں موجود ڈاکٹروں نے فوراً ہی ان کے معدے کو واش کیا اور وہ ہوش میں آگئیں۔‘
ڈاکٹر حیدر علی سوات میں پچھلے کئی سالوں سے ایک سائیکاٹریسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اکثر لوگ پہلے تو ذہنی بیماری کو ایک بیماری نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے بھی ہے تو وہ کسی سائیکاٹرسٹ کی کلینک میں جانے سے کتراتے ہے۔ ’کچھ لوگوں کو اگر ذہنی بیماری کے بارے میں کوئی تشویش بھی ہے تو وہ ڈاکٹروں کی بجائے دم درود والے ملّاوں کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر حیدر علی بھی سجھتے ہیں کہ سوات میں حالات کی خرابی کے بعد خودکشیوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان کے مطابق خودکشی کے یہ کیسز بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں اور اکثر خاندان خودکشی کو بھی قدرتی موت اعلان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حیدر علی کے مطابق میڈیا کو بھی خودکشی کے کیسز پر رپورٹ شائع یا نشر کر تے وقت اس بات کا خیال رکھنا چائیے کہ خودکشی کے مناظر نہ دیکھائے جائیں۔
’اکثر آپ نے دیکھے ہوں گے کہ ٹی وی پر یا اخباروں میں خودکشی کے بعد لٹکتی ہوئی لاشوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں۔ ایسا بالکل نہیں کرنا چائیے کیونکہ ان تصاویر یا ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد دوسرے ذہنی بیمار افراد بھی ایسا ہی اپنے آپ کے ساتھ کرنے پر سوچتے ہیں۔‘