اب تک صدور کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے معاملے میں خاصا کم تصادم رہا ہے، کم ازکم جدید دور میں تو۔ شدید متعصب صدارتی مہم کے بعد تعلقات کچھ سرد تو پڑ ہی جاتے ہیں، اس میں نیا کچھ نہیں، آخر جیتنے والےنے کئی ماہ موجودہ صدر کے ریکارڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے گزارے ہوتے ہیں، چاہے موجودہ صدر ریٹائر ہو رہے ہوں یا دوبارہ منتخب ہونے کے خواہشمند ہوں۔
اس عام تناؤ کے علاوہ ایک ہی سنگین خلل 01-2000 میں آیا تھا جب بہت کم ووٹوں سے ہارنے کے بعد صدر بل کلنٹن کو صدر جارج ڈبلیو بش کو صدارت منتقل کرنی پڑی تھی۔
جب ’ڈبیا‘ (بش کا نک نیم) نئے صدر کے طور پر 20 جنوری کو اپنی ٹیم کے ہمراہ دفتر پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ کئی کمپیوٹروں کے کی بورڈز سے ’ڈبلیو‘ کا حرف ہٹا ہوا تھا اور اس طرح کے اور پرینک یا مذاق تھے جیسے ٹی وی شو ’دی آفس‘ میں ٹیم کا کردار گیرتھ کے کردار کے ساتھ کرتا تھا۔ ان مزاحیہ حرکات سے 14 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا تھا اور اس کے بعد سے صدر اس طرح کے رویوں پر اعتراض کرتے ہیں۔
لیکن ایسا اب تک تھا۔ اب مکمل طور پر رکاوٹیں ڈالنے کا سما ہے۔ اقتدار کی پر امن اور ہموار منتقلی کے انتظامات کے قواعد امریکی آئین کی 20ویں ترمیم اور 1963 پریزیڈینشل ٹرانزشن ایکٹ میں درج ہیں۔ قواعد میں یہ کنوینشن بھی شامل ہے کہ ایک امیدوار باضاطہ طور پر اپنی ہار کو تسلیم کرتا ہے جس سے واشنگٹن کی بیوروکریسی کو اشارہ ملتا ہے کہ وہ اپنا کام شروع کردے۔ اس میں جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن (جی ایس اے) کی معاونت بھی شامل ہوتی ہے جو دفاتر، کٹیں اور فنڈ مہیا کرتا ہے۔ تاہم اس بار جی ایس اے کی سربراہ ایمیلی مرفی صدر ٹرمپ کے ہار تسلیم کر لینے تک وسائل کی تقسیم کی اجازت یا تو نہیں دے سکتیں یا نہیں دینا چاہتیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ صدر کو ہار تسلیم کرنے میں وقت لگے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ جو بائیڈن کی ٹیم جو ابھی بن رہی ہے اس کو حساس بریفنگ سمیت اہلکاروں اور معلومات تک آسان رسائی نہیں ہوگی۔ یہ کچھ سالوں میں مسئلہ تھا۔ مثال کے طور پر 1980 میں اس سے تہران میں یرغمال امریکیوں کو آزاد کروانے کی کوششوں میں خلل پڑا ہوگا۔ ایرانی آیت اللہ نے امریکیوں کو آزاد کرنے میں جان بوجھ کر رونلڈ ریگن کے صدرات سنبھالنے تک کا انتظار کیا تاکہ وہ جمی کارٹر کی مزید تذلیل کر سکیں۔
موجودہ کووڈ بحران میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر مزید سنگین بات ہے۔
اس طرح کے بحران اکثر دونوں فریقوں کو ایک پیج پر لانے کا کام کرتے ہیں مگر ٹرمپ کی جانب سے اس وبا، جسے وہ ’چینی وائرس‘ کہتے آئے ہیں، سے نمٹنے کا طریقہ کار اس الیکشن میں ایک انتہائی متازع مسئلہ بن گیا جو شائد ووٹروں کے لیے فیصلہ کن تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ماننا مشکل ہی ہے کہ صدر ٹرمپ اس شخص کی مدد کیوں کرنا چاہیں گے جس نے انہیں شکست نہیں دی بلکہ، ان کے مطابق، بدعنوانی کے ذریعے انتخاب ان سے ’چوری‘ کیا ہے۔
بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان ناراضگی دونوں طرف بڑھ رہی ہوگی خاص طور پر اب جب موجودہ صدر اپنا کیس عدالت میں لے جا رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر ریلیوں کے ذریعے عوام تک لے جا رہے ہیں جو عوام کی جمہوری خواہش کے خلاف ہے۔ مگر یہ فیصلہ ٹرمپ کا ہے۔
صدارت کی منتقلی کی لمبی مدت کی امریکی روایت عام نہیں، اس میں اب بھی 70 دن باقی ہیں۔
کئی ممالک میں انتظامیاوں کے درمیان ایک کلین بریک ہوتی ہے، بس اپوزیشن رہنماؤں کی سول سروس کے ساتھ کچھ غیر رسمی بریفنگ اور پھر الیکشن ڈے ’سب بدلنے‘ کا اشارہ ہوتا ہے۔
جیسے برطانیہ میں ہوتا ہے جہاں زیادہ آزاد سول سروس مشینری جس میں کم سیاسی بھرتیاں ہوتی ہیں ایک خاموش اور پرامن اقتدار کی منتقلی کو ممکن بناتی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ ہارنے والی ٹیم کے پاس کچھ غلط کرنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔ تاہم ابھی صدر ٹرمپ کے پاس معافی نامے جاری کرنے، جنگیں شروع کرنے، کچھ ملازمین کو نوکری سے نکالنے اور آنے والے صدر کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا وقت اور اختیار بھی ہے۔
حالانکہ ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان صدارت کی منتقلی تو ابھی رکی ہے، مگر انتھنی فاؤچی جیسے اہم اہلکاروں کو نومنتخب صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم سے غیر رسمی طور پر ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا، ایسے جیسے صحافیوں کو کہا جاتا ہے ’آف دا ریکارڈ۔‘
تاہم خفیہ اور حساس معاملات، خاص طور پر سکیورٹی انٹیلیجنس سے جڑے معاملات، ابھی سرکاری طور پر بائیڈن اور ان کی ٹیم سے دور ہی رکھے جائیں گے۔
ایسا ممکن ہے صدر ٹرمپ کی مہم کی جانب سے بڑے پیمانے پر دائر کیے گئے مقدموں کے فیصلے آنے میں وقت لگے گا۔ اس سے اپنے پہلے ’سو دنوں‘ کی منصوبہ بندی کرنے میں بائیڈن کی ٹیم کو مشکلات رہیں گی۔
وبا کے دنوں میں اس سے جانیں جائیں گی، مگر انتخابات میں بدعنوانی جیسے الزامات کی طرح اس کا عدالتوں یا سیاسی دباؤ ڈالنے میں کوئی حل نہیں ملتا۔
© The Independent