برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کو ’بہت سنجیدگی‘ سے لے رہا ہے کہ ایک رپورٹر نے آنجہانی شہزادی ڈیانا کا خصوصی انٹرویو لینے کے لیے ممکنہ طور پر جعلی دستاویزات کا استعمال کیا۔
’بی بی سی‘ نے نے وعدہ کیا ہے کہ شہزادی کے انٹرویو کے معاملے کی دوبارہ تحقیقات کی جائے گی۔ شہزادی ڈیانا نے اس انٹرویو میں شہزادہ چارلس کے ڈچس آف کورن وال کمیلا پارکر بولز کے ساتھ تعلقات کی جانب اشارہ کیا جس کے بعد جدید شاہی تاریخ میں اس انٹرویو کو اہمیت حاصل ہو گئی۔
انٹرویو کا اہتمام مارٹن بشیر کے توسط سے کیا گیا تھا جو اس وقت نشریاتی ادارے کے مذہبی امور کے نمائندے ہیں۔ مارٹن بشیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے شہزادی ڈیانا کو انٹرویو کے لیے قائل کرنے کے لیے ان کے بھائی چارلس سپنسر کو قائل کرنے کی خاطر بینک کی جعلی دستاویزات کا استعمال کیا۔
نشریاتی ادارکے ڈائریکٹرجنرل ٹم ڈیوی نے ایک بیان میں کہا: ’بی بی سی اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے اور ہم سچائی تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم بھرپور اور آزادانہ تحقیقات کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
’بی بی سی‘ کے ترجمان نے مزید کہا ہے کہ بشیر کووڈ کی وجہ سے پیچیدگیوں کا شکار ہیں اور اس وقت اتنے بیمار ہیں کہ الزامات کا جواب نہیں دے سکتے۔
1995 میں شہزادی ڈیانا کی مستقل کے بادشاہ سے علیحدگی کے بعد منظرعام پر آنے والا انٹرویو اس وقت ذرائع ابلاغ کے لیے دہائی کے اہم معاملات میں سے ایک بن گیا تھا جب پرنسس آف ویلز نے ’بی بی سی‘ کو بتایا: ’اس شادی میں تین لوگ تھے اس لیے ہجوم تھوڑا زیادہ ہوگیا تھا۔‘
انٹرویو سے قبل کچھ ہفتوں میں بشیر نے شہزادی ڈیانا کے چھوٹے بھائی ارل سپنسر، چارلس ایڈورڈ مورس سے رابطہ کیا۔ ان تفصیلات کے مطابق جو اس سے پہلے منطرعام پرنہیں آئیں، ارل سپنسر کا دعویٰ ہے کہ انہیں ’جعلی بینک سٹیٹ منٹس‘ دکھائے گئے جن کا تعلق سیکیورٹی سروسز کی جانب سے شاہی خاندان کے دو افراد کو مبینہ ادائیگیوں سے تھا۔
آیا ارل کے سابق ملازم سے متعلق دوسری جعلی دستاویزات جو اس وقت پیش کی گئیں وہ ’بی بی سی‘ کی تحقیقات کا موضوع تھیں کیونکہ ادارے نے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا شہزادی کو گمراہ کیا گیا تھا یا نہیں۔ ایک نوٹ پر مشتمل اہم شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔
تاہم نشریاتی ادارہ تب سے کہہ رہا ہے کہ جس نوٹ کی بات کی جا رہی ہے اس کی نقل اس کے پاس موجود نہیں ہے۔
’بی بی سی‘ کے سابق چیئرمین لارڈ گریڈ نے کہا ہے کہ ان الزامات کے بعد ’بی بی سی کی صحافت پر بہت گہرا بادل منڈلا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ’بی بی سی ریڈیو فور‘ کے پروگرام ’دا ورلڈ ایٹ ون‘ کو بتایا: ’ہمیں معاملے کی ٹائم لائن کو جانچنا ہوگا کہ کون کس وقت کیا جانتا تھا۔ کیا ڈیانا کا خط جعلی سازی تھی، یہ وہ سوال ہے جو پوچھے جانے کی ضرورت ہے؟‘
’ہو سکتا ہے کہ اس کے بہت اچھے جوابات موجود ہوں اور ممکن ہے اس معاملے سے بی بی سی بڑی صفائی کے ساتھ نکل آئے۔ لیکن بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ معاملے کو صاف کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آزادانہ تحقیقات کوشائع کر دیا جائے۔‘
لارڈ گریڈ نے مزید کہا: ’اس ملک میں بی بی سی کی صحافت کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ معلومات کے حصول کے لیے جعلی دستاویزات کی تیاری نے بی بی سی کے لیے بہت سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں اور بی بی سی کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے صاف کر دے۔‘
’کیا اس وقت بی سی سی کے ادارتی معاملات کے انچارج کو اس بات کا علم تھا کہ جعلی بینک سٹیٹ منٹس استعمال کیے گئے یا انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی؟ کس کے علم میں تھا اور کس کے علم میں کب آیا اور کیا اس وقت معاملے کو دبا دیا گیا؟ یہ بی بی سی کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے جو اپنے آپ کو بہت معتبرسمجھتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’بی بی سی اس ملک اختیارات رکھنے والوں پر نظر رکھتا ہے۔ کسی غلط کام کی صورت میں چاہے وہ بہت عرصہ پہلے کیا گیا ہو یہ پہلا ادارہ ہوتا ہے جو آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن جب معاملہ خود بی بی سی کا ہو تو ایسا لگتا ہے کہ قواعد کسی حد تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘
یہ بیانات ایسے وقت میں آ رہے ہیں جب وہ گرافک ڈیزائنر جنہوں نے وہ جعلی دستاویزت تیار کیں جو مبینہ طور پر ڈیانا کے انٹرویو کے لیے استعمال کی گئیں، انہوں نے نشریاتی ادارے پر زور دیا کہ وہ ان سے معافی مانگے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں ’قربانی کا بکرا‘ بنایا گیا۔
گرافک ڈیزائنر میٹ وزلر نے دعویٰ کیا انہیں جو جعلی دستاویزات تیار کرنے کا کہا گیا ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ سیکیورٹی سروسز شہزادی ڈیانا کی جاسوسی کے لیے شاہی خاندادن کے افراد کو رقوم ادا کر رہی تھیں۔
انہوں نے ’آئی ٹی وی‘ کی دستاویزی فلم ’دا ڈیانا انٹرویو: ریونج آف دا پرنسسس‘ کے دوران بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا اور انہوں نے جلد ہی شعبہ چھوڑ دیا۔
وزلر نے کہا: ’میں نے واضح طور پر محسوس کیا میں ایک ایسا شخص ہوں جو اس کہانی میں قربانی کا بکرا بنے گا۔ اس معاملے میں جو بھی چاہتا ہوں وہ بی بی سی کے حوالے سے ہے کہ وہ آگے آئے اور دیانت داری سے معافی مانگے۔ کیونکہ اس معاملے کا بہت زیادہ اثر پڑا تھا۔‘
© The Independent