پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر بابر اعظم کو ٹیسٹ کرکٹ کا بھی کپتان مقرر کردیا ہے۔ وہ قومی ٹیم کے 33ویں ٹیسٹ کپتان ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں پہلے ہی ٹیم کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے ۔
پی سی بی کی جانب سے اس فیصلے کی بازگشت تو پردہ اٹھنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی اور زبان زد عام تھی۔ سوائے بورڈ کی سرکاری ویب سائٹ کے تمام ذرائع ابلاغ بابر کی کپتانی کا اعلان بھی کرچکے تھے اور تبصرے بھی ہورہے تھے۔
26 سالہ بابر اعظم کو اگر قسمت کا دھنی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ پانچ سال قبل اپنے کرکٹ کیرئیر کا آغاز کرنے والے بابر اعظم نےجس تیزی سے ترقی کے زینے طے کیے ہیں وہ فقیدالمثال ہیں۔
انڈر 19 سے سیدھے قومی ٹیم میں آنے والے بابر اعظم نے جس دن سے بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان کرائی اس دن سے وہ ایک ایسے کھلاڑی بن گئے جس نے جہاں بھی کھیلا تماشائیوں کے دل موہ لی ےاور ماہرین کو انگشت بہ دنداں کردیا ۔
بابر اعظم کو ایسے وقت میں کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا جب پاکستان کی بیٹنگ میں خلا آرہا تھا۔ یونس خان اور مصباح الحق ریٹائر ہوگئے تھے۔ ایسے میں بابر نے نہ صرف ان کی جگہ مڈل آرڈر کی ذمہ داری لی بلکہ ٹیم کی توقعات کو بہت حد تک پورا کیا۔
ان کے ذمہ دارانہ انداز اور انہماک نے پاکستان کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے تبصرہ نگاروں کو مجبور کردیا کہ وہ بابر اعظم کو کپتانی کے لیے تجویز کرتے رہیں ۔
جیسے جیسے ان کی بیٹنگ میں نکھار آتا گیا ویسے ہی دوسرے بلے بازوں کی کارکردگی نشیب وفراز کا شکار ہونے لگی۔ ان کے ساتھ ٹیم میں موجود سینئیر بلے باز اظہر علی اور اسد شفیق کی بیٹنگ پچھلے دو سال سے مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے اورباقی کوئی ایسا نہیں جس کی جگہ مستقل ہو۔ پھر سابق کپتان سرفراز احمد کی کپتانی میں چند شکستوں نے جب ان کا مستقبل مسدود کیا تو بابر اعظم مضبوط امیدوار بن کر سامنےآگئے ۔
بورڈ نے پہلے انہیں ٹی ٹوئنٹی کا کپتان مقرر کیا ۔ اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف پہلی ٹیسٹ سیریز میں انہیں شکست سے اپنی ابتدا کرنی پڑی لیکن خوش قسمت رہے کہ یہ شکستیں بورڈ نے نظر انداز کردی۔ بورڈ نے مزید اعتماد کرتے ہوئے ان کو ون ڈے کا کپتان بھی مقرر کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بابر اعظم کی خوش قسمتی کہ انہیں ون ڈے میں پہلی سیریز ہی زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے ملی جس میں وہ دو میچ باآسانی جیت گئے البتہ ایک میچ میں شکست کھا گئے۔
زمبابوے سے جیسے ہی سیریز ختم ہوئی تو پی سی بی نے اظہر علی کو ہٹا کر بابر اعظم کو ٹیسٹ کرکٹ کپتان مقرر کردیا ۔ بورڈ کےچئیرمین احسان مانی نے منگل کو اظہر علی سے ملاقات کی اور واضح کردیا کہ اب وہ مزید کپتان نہیں رہ سکتے حالانکہ گذشتہ مئی میں بورڈ نے انہیں غیر معینہ مدت کے لیے کپتان بنایا تھا لیکن صرف چھ ماہ میں ہی ان کا ستارہ ڈوب گیا اور بابر اعظم کے ستارےکو عروج مل گیا ۔
پی سی بی کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے اور ماضی میں اسی طرح کپتان آتے اور جاتے رہے ہیں۔ اپنی روایات کے عین مطابق بورڈ نے کپتانی کا یہ بریک ڈانس آج بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
اس ساری تبدیلی میں دلچسپ بات یہ ہے کہ 75 سالہ بوڑھے بورڈ کے چئیرمین نے بابر اعظم کو کپتان بناتے ہوئے نوجوان قیادت کی بات کی ہے اور کپتانی کی تبدیلی کا پس منظر جوان خون لانا پیش کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک اچھا جواز ہے مگر اس سوچ کو بورڈ کے عہدیداروں میں بھی ہونا چاہیے جہاں اکثریت عمر رسیدہ لوگوں کی ہے۔
بابر اعظم ایک انتہائی باصلاحیت کھلاڑی اور زیرک کرکٹر ہیں۔ ان میں پختگی ہے اور احساس ذمہ داری ہے وہ اپنے خیالات کا اظہار بہت احتیاط سے کرتے ہیں اور ساری توجہ اپنے گیم پلان پر رکھتے ہیں۔
ایک کامیاب کمانڈر کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ خود تو لڑنا جانتا ہو لیکن اپنی ٹیم کو لڑانا بھی جانتا ہو۔ بابر نے اب تک جس فارمیٹ میں بھی کپتانی کی ہے بڑے اعتماد اور انہماک سے کی ہے اور اپنے پیشروؤں کے برعکس وہ گراؤنڈ میں فعال نظر آتے ہیں اور بولرز پر غیر ضروری دباؤ نہیں ڈالتے ہیں ۔
ٹیسٹ کرکٹ فارمیٹ قدرے مختلف اور مشکل ہے۔ پاکستان آئی سی سی چیمپیئن شپ میں 166 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے اور اسے چوتھے نمبر پر موجود نیوزی لینڈ کے ساتھ ان کے گراؤنڈز میں دو ٹیسٹ کھیلنا ہیں ۔
پاکستان کی موجودہ ٹیم کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک بہت مشکل سیریز ہوگی۔ بیٹنگ کمزور ہے اور بولنگ میں تجربے کی کمی ہے۔ یوں کہیے بابر اعظم کے لیے سر منڈاتے ہی اولے بھی پڑ سکتے ہیں ۔
ایک بہترین بلے باز کی حیثیت سے بابر اعظم کی صلاحیتوں کی ساری دنیا معترف ہے اور انہیں دنیا کے پانچ بہترین بلے بازوں میں سب سے اوپر سمجھتی ہے لیکن کیا نوجوان بابر اعظم کے لیے یہ نیا اعزاز ایک مشکل ہدف ثابت ہوگا ؟ یا اس کانٹوں بھری شاہراہ سے وہ اسی سبک خرامی سے گزر جائیں گے جیسے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں گزررہے ہیں۔
بابر اعظم کے لیے آج بورڈ سے لے کر میڈیا تک ہر سطح پر بہت سارے خیر خواہ ہیں جو ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں لیکن بابر یہ نہ بھولیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صبح شام شور کرکے سرفراز کی جگہ اظہر علی کو کپتان بنوایا تھا اور اب جب اظہر کوسبکدوش کیا گیا تو سارا زمانہ بیگانہ ہو گیا ۔