قدرتی آفات اور وبائی صورت حال اپنے اسباب کے علاوہ مخلوق پر ایک امتحان بن کر اترتے ہیں جہاں انسان اس آزمائش کی بھٹی سے گزرتا ہے جہاں پر اپنے آپ سے زیادہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی اوج فاطمہ کا شمار پاکستان کے ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک منفرد اعزاز اپنے نام کر لیا اور کرونا (کورونا) وائرس کی وبا سے متاثر ہزاروں افراد کو اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر پہنچا دیا جس سے بے شمار ایسے لوگوں کو بھی فائدہ ہوا جن کے ہاتھوں سے روزگار چھن گیا تھا۔
اوج فاطمہ کہتی ہیں: 'میں نے کرونا وبا کے دوران اس قدم کا آغاز کیا تھا کہ جو بھی کرونا سے متاثرہ لوگ ہوں گے ان کو کھانا بنا کر بھیجوں گی۔ اس قدم کا آغاز میں نے اپنے پاس موجود اضافی رقم سے کیا تھا، یہ وہ پیسے تھے جسے میرے والدین نے میرے مستقبل کے لیے سنبھال رکھے تھے تاکہ یہ آنے والے دنوں میں کام آئیں گے۔ میرا خیال تھا کہ صرف کرونا مریضوں کو کھانا بھیجوں گی کیونکہ کھانا میں نے خود بنانا تھا اور خیال تھا کہ 25 سے 30 خاندانوں کے لیے کھانا بنانا ہوگا۔ لیکن پہلے ہی دن 35 سے زائد افراد نے مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ میں نے لاہور کے کسی حدود کا ذکر نہیں کیا تھا۔ کسی ایک کو بھی انکار کرنا میرے لیے ممکن نہیں تھا اور جس کسی نے بھی رابطہ کیا تھا ان کو کھانا بنا کر بھیجنا شروع کر دیا۔‘
اخوت نامی بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے معروف ادارے کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر امجد ثاقب ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ کمال کی بات نہیں ہے کہ ایک بچی یہ کہتی ہے کہ میں نے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ’وہ پولیس کا سپاہی ہے، ڈاکٹر ہے، پیرامیڈیکس ہے، نرس ہے، غریب طبقے ہیں، خواجہ سرا ہیں یا جو بھی ہیں، ان کو احساس دلانا ہے کہ کرونا کے وبائی دنوں میں جو کھانا پیش کر رہی ہوں یہ گھر سے تیار ہو کر آیا ہے۔ اس میں خیرات نہیں ہے اس میں میری محنت کی محبت شامل ہے۔ میں نے اپنا بھائی اور بزرگ سمجھ کر یہ کھانا بنایا ہے کہ آپ وبا کے دنوں میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور آپ کو یاد رہے کہ کوئی بہن آپ کو کھانا بھیج رہی ہے۔ اور یہ میری محبت کا، عقیدت کا تحفہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور جیسے گنجان آباد شہر کے لیے اوج فاطمہ کا یہ اقدام سوچ کے اعتبار سے بہت بلند مگر مقدار کے اعتبار سے بہت چھوٹا تھا لیکن اوج نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ان کا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا اور انہوں نے اپنے ڈسٹینس دسترخوان کو اور بھی وسیع کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک وہ کم از کم 15 ہزار افراد کو اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر بھجوا چکی ہیں، اور اس کھانے کو وہ خیرات نہیں کہتیں بلکہ اسے محبت کی علامت سمجھتی ہیں۔ ’یہ کھانا میں ایسے ہی بناتی ہوں جیسے اپنے کسی عزیز کے لیے بناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے جن سے میں کبھی ملی نہیں ہوں۔‘
ڈاکٹر امجد ثاقب، چیف ایگزیکٹو اخوت، اوج فاطمہ کے اس قدم کو آتش نمرود بجھانے کی کوشش کرنے والی چڑیا کے ایک قطرہ پانی کے مانند قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاشرے کی تشکیل کی بنیادی اکائی فرد ہے، فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ اس کے پاس وسائل ہیں تو اس میں دوسروں کو شریک کرنا چاہیے۔ اگر وہ خدانخواستہ ضرورت مند ہے تو دوسرے افراد کو چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم کریں۔
کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں ہر شے کو اس سے مہلک شدہ سمجھا جاتا تھا اور اوج فاطمہ کو یہ فکر لاحق تھی کہ کسی طرح اگر وہ اس جراثیم سے متاثر ہوگئیں تو اتنے لوگوں کا کیا ہوگا جن کو روزانہ کھانا پہنچانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اشیا کی خریداری کے لیے وہ خود جاتی تھی۔ گھر میں سامان لے کر آنا، اسے کاٹنا، بنانا، ہر چیز وہ خود کر رہی تھی۔ نہ انہوں کوئی ملازم رکھا اور نہ ہی کسی سے مدد طلب کی کہ کہیں ان کی وجہ سے وہ بھی اس وبا کا شکار نہ ہو جائیں اور اس ذمہ داری کو نبھا نہ سکیں۔
پاکستان میں کرونا کیسز کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شہری گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کرونا ایک لہر تھی جو آئی اور چلی گئی، ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ کرونا ختم نہیں ہوا۔ ’ہمیں احتیاط کا دامن چھوڑنا نہیں ہے۔ وبا ہو، آفات ہوں، بارشیں ہوں یا طوفان ہو فرد کو فرد کے ساتھ محبت کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم حکومت کے ساتھ مل کر معاشی اور سماجی بہتری کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔‘
کرونا متاثرین کو کھانا پہنچانے والی اوج فاطمہ کے لیے یہ بھی مشکل مرحلہ تھا کہ لاہور کے دور دراز علاقوں سے لوگ ان کے ساتھ رابطہ کرتے تھے اور اس کے فاصلاتی دسترخوان میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کرتے تھے جن کو کھانا پہنچانا مشکل تھا۔ مگر یہ مرحلہ کئی ایسے لوگوں کے لیے روزگار کا سبب بن گیا جو کرونا کے دوران اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اوج نے بتایا کہ لاہور کے کافی ایسے علاقے تھے جو بہت دور تھے۔ ’میں وہاں تک کھانا بھجواتی رہی ہوں۔ میں نے اس کے لیے (موٹرسائیکل) سواروں کو کرایہ پر لیا تھا اور ایسے لوگوں کو کام سونپا تھا جن کی نوکری وبا کی وجہ سے چلی گئی تھی۔ میرا ارادہ تھا کہ ان کی بھی کسی طرح مدد ہوسکے۔‘
بازار سے سودا سلف لانے، اسے صاف کرنے، کاٹنے، ماسک پہن کر بنانے اور ڈسپوزیبل برتن میں رکھ کر کرونا متاثرین تک پہنچانے والی اوج کا ماننا ہے کہ کسی بھی زمینی یا آسمانی آفت یا کوئی بھی حالت جس میں آپ کو محسوس ہوجائے کہ لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو گھر میں روزانہ بننے والے کھانے میں تین چار افراد کے لیے اضافی کھانا بنائیں اور ان تک پہنچائیں تو قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جائے گا۔ اور ہم بہت سے لوگوں کے کام آسکتے ہیں۔
۔۔۔
کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرنے والے کرداروں پر مبنی یہ کہانی ’پرعزم پاکستان‘ مہم کا حصہ ہے۔ اس کی اشاعت اور پروڈکشن انڈپینڈنٹ اردو اور پاکستان پیس کولیکٹو کی مشترکہ کاوش ہے۔ ایسے باہمت اور پرعزم کرداروں اور ان کی محنت کو سامنے لانے میں ان طلبہ و طالبات نے کلیدی کردار ادا کیا جو پاکستان پیس کولیکٹو کے ڈاکومینٹری فلم کے تربیتی پروگرام کا حصہ تھے۔