پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان آج اپنے افغانستان کے پہلے سرکاری دورے پر کابل روانہ ہوں گے۔ انہیں دو ماہ قبل افغان صدر اشرف غنی نے دورے کی دعوت دی تھی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دفتر سنبھالنے کے بعد یہ وزیر اعظم کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے اور ان کے ہمراہ وزیر خارجہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ڈی جی آئی ایس آئی، افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی صادق خان اور دیگر اعلیٰ افسران بھی کابل جائیں گے۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم افغان صدر سے ون آن ون ملاقات کریں گے جس کے علاوہ وفود کی سطح پر مذاکرات اور مشترکہ پریس کانفرنسیں بھی ہوں گی۔
سرکاری سطح پر بتایا گیا ہے کہ دورے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تعلقات کو مزید گہرا بنانا، افغان امن عمل اور علاقائی امن پر زور دینا ہے۔
یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے مئی 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ قبل ازیں دونوں راہنماؤں نے مئی 2019 میں مکہ میں 14ویں او آئی سی اجلاس کے سائیڈ لائن پر بھی ملاقات کی تھی۔
کابل کا دورہ اہم کیوں ہے؟
گذشتہ ہفتے 14 نومبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک اہم پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کے پاس بھارت کے پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے ایک ڈوزیئر دکھایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں ’بھارت کی جانب سے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے کے شواہد موجود ہیں۔‘
اس کے بعد وزیر خارجہ نے پی فائیو کے ممالک (برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ) کے سفیروں کو اس حوالے سے بریفنگ اور ڈوزیئر بھی دیے۔
واضح رہے کہ ڈوزیئرر میں یہ درج ہے کہ مبینہ طور پر بھارت کے افغانستان میں عبدالواحد اور عبدالقادر نامی سفارت کار براہ راست دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے 66 کیمپ افغانستان میں قائم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈوزیئر کے مطابق بھارت کے سفارت خانے اور قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث ہیں اور بھارت کے افغانستان میں سفیر اور جلال آباد میں قونصلر نے مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم بلوچ تنظیموں سے مالی امداد پر براہ راست رابطے کیے اور بھارتی شہری منمیت کے ذریعے بھاری رقم ڈالر میں افغانستان منتقل کی۔
حکومت کے مطابق ڈوزیئر میں شواہد دیے گئے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے پہلے بھی استعمال ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔
تاہم اس پیش رفت کے اگلے دن 15 نومبر کو افغانستان کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کا پاکستان کا الزام مسترد کرتے ہیں۔
ان تمام حالات میں وزیر اعظم کے ہمراہ پاکستانی انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ کا یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے-
اعلیٰ سفارتی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ دورے میں ’سب سے پہلا معاملہ افغانستان کی سرزمین پر پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی وار پر بات چیت ہے اور شواہد افغان حکومت کو دیے جائیں گے تاکہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائیاں کریں اور دونوں ممالک میں امن قائم کیا جا سکے۔‘
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید بتایا کہ دورے میں مشترکہ معاشی مفادات اور افغانستان میں امن بحالی کے پراجیکٹس پر بھی بات چیت ہو گی۔ اس کے علاوہ افغان امن عمل کو نئی امریکی قیادت کے ساتھ آگے کیسے بڑھایا جائے گا یا اس میں پاکستان کیا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے اس پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
وزات خارجہ کی جانب سے جاری آج کے شیڈیول میں تمام ملاقاتوں کے بعد کابل سے افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان مشترکہ پریس بریفنگ بھی کریں گے۔ دورہ ایک روزہ ہو گا اور وزیر اعظم سہ پہر تک ملک روانہ ہوں گے۔
سفارتی امور کور کرنے والے تجربہ کار صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ پاکستان کی موجودہ پالیسی کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دونوں سربراہان کی جانب سے ’شئیرڈ ویژن‘ کے دستاویز پر دستخط کیے جائیں گے جس سے پہلے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ معاہدے بھی ہوں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان افغانستان کو خطے میں تنہا ہونے دے گا بلکہ ’باہمی تعلقات میں اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ دونوں ممالک میں امن قائم رہ سکے اور دشمن کو یہ امن سبوتاژ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔‘