غالبا مئی کا مہینہ تھا۔ وبا پھیل چکی تھی اور دنیا بھر کے انسان گھروں تک محدود ہو چکے تھے۔ خبر آئی کہ اسلام آباد کے جنگلوں میں کہیں چیتا چلتا پھرتا نظر آیا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کرنے والوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ایک دن شہر کی ویرانیوں سے گزر کر ہم جنگل کی خاموشیوں میں پہنچے تو محکمہ جنگلات کے متحرک جوانوں کو جابجا کھڑے دیکھا۔
ایک سے ہم نے پوچھا، کیا چیتے والی خبر سچ ہے؟ اثبات میں سر ہلا کر اس نے دور پہاڑوں میں موجود اپنے کسی ساتھی کو واکی ٹاکی پر کہا، ’بھائی خبر کنفرم ہو گئی ہے کہ چیتے کے بچے ہوئے ہیں، اس کی ماں وائلینٹ ہو چکی ہو گی، چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔‘
یہ سن کر ہم میں سے کوئی سرکھجانے لگا تو کوئی بغلیں جھانکنے لگا۔ آگے جانا چاہیے یا پھر انہی قدموں پلٹ جانا چاہیے۔ ہم نے جوان سے پوچھا، ’اگر ہم جائیں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا؟‘
جوان نے کہا، ’ضرور جائیں مگر چیتا کہیں نظر آجائے تو آپ نے دو چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ ایک تو بھاگنا نہیں ہے، دوسرا اسے کچھ کہنا نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے چیتے کو یقین دلانا ہے کہ آپ سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ آج ہی ان کے بچے ہوئے ہیں، وہ مزید حساس ہو چکے ہوں گے۔ خاص طور سے ماں تو ان دنوں دور سے سنائی دینے والی آہٹ پر بھی پنجے جھاڑ لیتی ہے۔‘
ہم سب نے ایک دوسرے کو دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں ’خدا خیر کرے گا‘ کا تاثر دیا اور چل پڑے۔ دور تک چیتا، جانور اور حیوانی احساسات و نفسیات ہمارے بیچ زیر بحث رہے۔ کسی نے کہا، ’ہم فوری طور پر کیسے چیتے کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہم اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں؟‘
دوسری آواز آئی، ’میں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ جانوروں کے دل دماغ میں تو یہ بات اب بیٹھ چکی ہے کہ انسان ان کا جانی دشمن ہے۔ اب کسی جانور کو فوری طور پر کیسے سمجھایا جائے کہ اسی بندے دے پتر نیں۔ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہوئے تو زمانے لگ جائیں گے کہ ہم واقعی ڈنڈا ڈولی پر یقین نہیں رکھتے۔‘
ایک دوسرے دوست نے کہا، ’جین مت معلوم انسانی تاریخ کا سب سے قدیم مذہب ہے۔ اس مذہب کا پہلا اصول ہی عدمِ تشدد ہے۔ تشدد کے اس حد تک خلاف ہیں کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کسی جانور کا پیٹ نہیں پھاڑتے۔ اس مذہب کے سچے پیروکار جتنا ممکن ہو سکے جانور کو ڈرانے اور اس کا راستہ روکنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے بیچ پیدا ہونے والا جانور پہلے دن سے جان لیتا ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والا یہ حیوان ہماری جان کا دشمن نہیں ہے۔ ہمارا خیال رکھتا ہے اور ہم سے پیار کرتا ہے۔ کسی انسان کے آنے پر وہ بدکتا اور ڈرتا نہیں ہے۔ جب ڈرتا بدکتا نہیں ہے تو حملہ آور بھی نہیں ہوتا۔‘
یہ گفتگو سن کر میں بہت دور کراچی میں اپنے بچپن کے محلے ناظم آباد پہنچ گیا۔ یہاں شجاع نام کا ایک شخص ہوا کرتا تھا جو ذہنی توازن کھو چکا تھا۔ پراگندہ حال، پھٹے پرانے کپڑے، بڑھی ہوئی گھنی ڈاڑھی اور الجھے ہوئے بال۔ فٹ پاتھ پر سوتا تھا، خود کلامیاں کرتا تھا، ننگے پاوں دھوپ میں چلتا تھا اور ہر آتے جاتے کو سلام کرتا تھا۔ وہ جہاں سے گزرتا تھا آوارہ کتے سنگیوں کی طرح اس کے ساتھ ہو لیتے تھے۔ جہاں وہ سوتا تھا، ساتھ بلیاں بھی آ کر آرام سے سو جایا کرتی تھیں۔
دوست ایک دن بیٹھے تھے کہ شجاع خود کلامی کرتا ہوا سامنے سے گزرا۔ محلے کا ایک جانا مانا کتا سائے کی طرح اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ بات چل نکلی تو ایک دوست نے کہا، ’سارا محلہ شجاع کو پاگل کہتا ہے، مگر جانوروں کا خیال ہم سے بالکل مختلف ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس محلے میں رہنے والے سارے ہی لوگ پاگل ہیں۔ کوئی کم تو کوئی زیادہ پاگل ہے۔ سوائے شجاع کے یہاں کوئی اعتبار کے قابل نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہذب معاشرے کا انسان جانوروں کے ساتھ اپنے روایتی تعلق کا ازسرِ نو جائزہ لے رہا ہے۔ جو نسلیں انسان کے ہاتھوں معدوم ہو گئی ہیں، اس پر انسان شرمندگی کا اظہار کر رہا ہے۔ آگے کوئی نسل معدوم نہ ہو، اس کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ پروٹین کے لیے گوشت کے متبادل پر بھی بحث کا آغاز بھی کر چکا ہے۔
جانوروں کی بولیوں ان کی نفسیات اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شفا خانے تعمیر ہو رہے ہیں اور نت نئی ایمبولینسیں متعارف ہو رہی ہیں۔ رہنے کے لیے سازگار ماحول تشکیل دیا جا رہا ہے۔ جانوروں کے لیے ان اشیا کی خرید وفروخت میں اضافہ ہورہا ہے جس کا تعلق مارا ماری، کاٹا پیٹی اور پکڑ دھکڑ سے نہیں ہے۔ ان کا تعلق اپنائیت، وابستگی، محبت اور صحت تندرستی کے ساتھ ہے۔ ان کے بیچ پیدا ہونے والے جانوروں میں جھجھک اور خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ان جانوروں نے تو ٹریفک سگنل کا مطلب تک بھی سمجھ لیا ہے۔ سڑک عبور کرنے کے لیے سُرخ بتی کا انتظار کرتے ہیں اور زیبرا کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں معاملہ البتہ دو قدم پیچھے کو ہی جا رہا ہے۔ جانور کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں پہلا خیال اب بھی پکڑنے جکڑنے، مارنے پیٹنے، ڈکارنے ہڑپنے، ذبح کرنے اور شکار کرنے کا ہی آتا ہے۔ مارخور جیسی نسل جو آخری دموں پر ہے، اس کا نام و نشان مٹانے کے لیے پہاڑوں میں ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔ جانوروں کے لیے ہمارے ہاں جو چیزیں بک رہی ہیں اس میں چاقو، تبر، چھری خنجر، رسیاں زنجیریں، جال اور پنجرے ابھی بھی سرِ فہرست ہیں۔ سر فہرست کیا ہیں، دستیاب ہی یہی کچھ ہے۔ ٹریفک سگنل پر رکتے ہوئے اور زیبرا کراسنگ پر چلتے ہوئے ان جانوروں نے کبھی انسانوں کو نہیں دیکھا تو خود کیا چلیں گے۔
کسی نے کتا پالا ہوا بھی ہے تو اسے بلیوں اور کبوتروں پر چھوڑ کر خوش ہو رہا ہے۔ گنتی کے کچھ لوگوں نے اگر طریقے تمیز سے پالا ہوا ہے تو انہیں ہم عیاشی سمجھتے ہیں۔ اس ظلم کو مگر کچھ نہیں سمجھتے کہ جو پرندے اور جانور ہمارے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے، انہیں ہم نے زبردستی قید کر کے رکھا ہوا ہے۔
کچھ برس قبل سری لنکا نے خدا جانے کیا سوچ کر کاون نامی ایک ہاتھی پاکستان کو تحفے میں دے دیا۔ یہاں اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا جس کی ہم جیسے نرگسی کوفتوں سے توقع کی جا سکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ تنہائی میں مارا جاتا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک درخواست گزار کی درخواست پر اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ آج سے چار دن کے بعد اسے کمبوڈیا کے جنگلوں کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔ وہاں وہ کھلی فضا میں سانس لے گا اور اپنے قبیلے کے دوستوں کے ساتھ ’ہاتھی میرے ساتھی‘ گاتا ہوا خوب جھومے گا اور ناچے گا۔
کمبوڈیا کے ہاتھی جب کاون کی صحت دیکھ کر پریشان ہوں گے تو کاون انہیں کیا بتائے گا؟ کمبوڈیا کے ہاتھی ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے جب کاون ان سے کہے گا کہ ابھی تو تم لوگوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔ تم پاکستان میں میری حالت دیکھتے تو پہچان بھی نہ پاتے کہ یہ کون سا جناور ہے۔ میں تو چڑھتی جوانی میں قبیلے کا بزرگ لگ رہا تھا۔ آخری دنوں میں اگر میری سیوا نہ کی گئی ہوتی تو میں راستے میں ہی کہیں مر مرا کے سوا لاکھ کا ہو چکا ہوتا۔
خدا نہ کرے کہ کاون اپنے ساتھیوں کو بتائے کہ پاکستان کے جس چڑیا گھر میں مجھے رکھا گیا تھا وہ دارالحکومت کے زیر انتظام تھا۔ اس قید خانے میں میرے ساتھ ایک اور ہاتھی بھی تھا۔ اس کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔ میں نے احوال پوچھا تو اس نے بتایا، یہاں کھانے پینے کے مخصوص اوقات ہیں۔ خوراک کی مقدار بھی متعین ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب چاہا جہاں چاہا سونڈ اٹھا کے چل دیے۔ کھانے پینے کو اتنا ہی ملتا ہے جتنے پر زندہ رہا جا سکے۔ ہمارا زندہ رہنا صرف اس لیے ضروری ہے کہ تماش بین ہمارا خون جلا سکیں اور مالکان اپنے چولہے جلا سکیں۔
جو لوگ ہم پر مامور تھے، انہیں میں صبح شام بتاتا کہ میرا ساتھی بہت بیمار ہے۔ وہ سُنی ان سنی کرکے ایسے گزر جاتے جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں ہیں۔ حد تو یہ تھی کہ میرے ساتھی کو بیمار حالت میں بھی تماش بینوں کا جی بہلانے پر مجبور کرتے تھے۔ ایک دن میرا ساتھی نیم مردہ حالت میں پڑا میری طرف دیکھ رہا تھا تو میں نے بے بسی سے کہا، ’میں عملے کو بتانے کی کوشش تو کررہا ہوں مگر یہ لوگ شاید ہماری بولی نہیں سمجھتے۔‘
ساتھی نے نیم دلانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’یہ سب سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری دوا دارو کے جو پیسے مالکان کو ملتے ہیں وہ یہ چائے سگریٹ میں اڑا دیتے ہیں۔ ہمارے حصے کا جو چارا آتا ہے وہ آدھے سے زیادہ یہ ڈکار جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ ماں بولی نہیں سمجھتے تمہاری بولی خاک سمجھیں گے؟
’کچھ ہی دن بعد میں دیکھتا رہ گیا اور میرا ساتھی چل بسا۔ ساتھی چلا گیا اور پیچھے سناٹا، خاموشی، تنہائی اور اداسی رہ گئی۔ دیوار پر سر ٹکا کر کھڑا رہو یا پھر صحن میں یہاں وہاں ٹہلتے رہو۔ کھانا دینے کوئی آ جائے تو بات نہ کرے۔ حالِ دل سناؤ تو کوئی نہ سنے۔ لے دے کر تماش بین رہ گئے تھے، مگر وبا پھیلی تو وہ بھی اپنے گھروں کے ہو کر رہ گئے۔ میری تنہائی اور اداسی اور بھی گہری ہو گئی۔
’میری تنہائیوں کا کوئی بھی ساتھی نہیں تھا، اس لیے انسانوں کو بہت یاد کرتا تھا۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ جب لاک ڈاؤن ہوا تو جانوروں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ انسانوں کے پاس شور شرابے، ہلڑ بازی اور مستی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہی نہیں تھا۔ کوئی ہش ہش کرتا تھا، کوئی آوازیں کستا تھا اور کوئی تو ایسے ہاتھ اٹھاتا تھا جیسے مارنے کے لیے اتاولا ہو رہا ہو۔ خدا جانے جانوروں کو اکساکر انہیں آخر ملتا کیا تھا۔
’وہاں جو جانور پیچھے جنگلوں میں آزاد گھومتے تھے ان کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ پہاڑوں کی طرف آنے والے لوگ جانوروں کو دیکھ کر رکتے تھے تو پیار نہیں کرتے تھے۔ آوازیں کستے تھے اور اکساتے تھے۔ یہ دیکھ کر انہیں سکون ملتا تھا کہ جانور سہم رہا ہے، ڈر رہا ہے، بھاگ رہا ہے یا پھر غصے میں کوئی رد عمل دے رہا ہے۔ ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے تھے، مگر ان سے بھی ڈر ہی لگتا تھا۔ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔
’خیر، سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس شخص کو بہت یاد کرتا ہوں جس نے میری تکلیف کو عدالت میں زبان دی تھی۔ اسی کے بعد بہت اچھے اچھے لوگوں سے میری دوستی ہوئی۔ مجھے بے حس لوگوں کے چُنگل سے نکلنے کی خوشی بھی تھی، مگر اُن سارے لوگوں سے بچھڑنے کا دکھ بھی بہت تھا جو آخری دنوں میں مجھ سے ملنے آتے تھے۔ میرا خیال رکھتے تھے، دیر تک مجھ سے باتیں کرتے تھے اور مجھے مزے مزے کے گیت سناتے تھے۔ ایک دن تو اتنے اچھے موسم میں ایک پیارے انسان نے مجھے Autumn Leaves بھی گا کر سنایا۔ اس دن میں نے پہلی بار ہلکا سا ڈانس بھی کیا تھا۔‘