حال ہی میں ایران میں ایٹمی پروگرام کے بانی سائنسدان محسن فخری زادہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا جس کا ذمہ دار تہران نے اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا عندیہ دیا، جس پر اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کی سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ خلیج عرب میں تعینات کر دیا ہے۔ خلیج عرب کے ساتھ قائم ممالک میں ایران، عمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عراق، قطر،بحرین اور کویت شامل ہیں۔
رواں برس جنوری میں بھی ایران اور امریکہ کے مابین جنگ کے بادل خطے پر منڈلانے لگے تھے، جنہیں پاکستان نے سفارتی کوششوں سے چھٹنے میں مدد کی تھی۔
عرب ممالک کی ایران سے چقلش بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی اور اب عرب اسرائیل تعلقات کا جو نیا باب کھلنے جا رہا ہے، اس کے بھی خطے میں یقینی اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے میں ابھی 49 دن باقی ہیں۔ ایران کا اسرائیل سے بدلہ لینے کی صورت میں کیا اقتدار چھوڑنے سے پہلے صدر ٹرمپ کوئی ایڈونچر کرسکتے ہیں؟یا پھر ڈیموکریٹس، جن کے پہلے ادوار میں عراق اور افغانستان کی جنگیں شروع ہوئی تھیں، دوبارہ آمد کے ساتھ ہی تاریخ دہرا سکتے ہیں؟ اس سارے معاملے میں کیا پاکستان پہلے کی طرح کشیدگی کم کرنے میں معاون کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سفارتی سطح پر آج کل زیر بحث ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں سابق سفارت کاروں اور سفارتی امور کے چند ماہرین سے رابطہ کر کے ان کی رائے لی۔
ایران میں سفارت کاری کے امور سرانجام دینے والے پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'اگرچہ اس خطے میں حالات کبھی بھی نارمل نہیں رہے لیکن صدر ٹرمپ جاتے جاتے اسرائیل کے دباؤ پر شدید نوعیت کا کوئی فیصلہ نہیں لیں گے اور نہ ہی ان کی ڈیپ سٹیٹ اس بات کی حمایت کرے گی کہ ایسا کوئی فیصلہ رخصت ہونے والے صدر سے لیں جس کا اثر آنے والی انتظامیہ پر پڑے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا تاریخی پس منظر اور ان کے بیانات کے تناظر میں ایسا نہیں لگتا کہ وہ انتظام سنبھالتے ہی کسی جنگ کا حصہ بنیں گے یا اپنی فوج کہیں پر بھیجیں گے۔'
آصف درانی نے کہا کہ 'معاملہ صرف اسرائیل یا امریکہ کی طرف سے نہیں بلکہ ایران بھی کچھ ایسے اقدامات کرتا ہے، جس کی وجہ سے معاملے کو ہوا ملتی ہے۔ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے، ایسا نہیں کہ کوئی ایک فریق قصور وار ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'عرب اور ایران کی آپس میں نہیں بنتی اور یقینی طور پاکستان کسی کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کا صرف یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ اپنا سفارتی توازن قائم رکھے، کیونکہ پاکستان کسی بھی بلاک کا حصہ بننے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی اسے بننا چاہیے۔'
اس حوالے سے سابق پاکستانی سفیر عاقل ندیم نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ 'ابھی جنوری والے حالات نہیں ہیں، جنوری میں تو ایرانی جنرل کا قتل ہوا تھا پھر بھی معاملہ سیٹل ہو گیا تھا۔ ابھی ردعمل بیانات کی حد تک ہی ہو گا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ 'اوبامہ انتظامیہ کے دور میں جب افغانستان میں مزید فوج بھجوانے کی بات ہوئی تو اس وقت جو بائیڈن نائب صدر تھے، لیکن انہوں نے مزید فوجی دستے بھجوانے کی مخالفت کی تھی۔ امریکہ اب ایران کا ایٹمی معاہدہ بھی شاید بحال کر دے گا۔ اسرائیل یقینی طور پر دباؤ ڈال سکتا ہے لیکن حالات اس نہج پر نہیں جائیں گے کہ زمینی جنگ کا احتمال ہو، کیونکہ خلیجی ممالک بھی اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ وہ اپنے آپ کو جنگ میں دھکیلیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان کسی بھی فریق کو دباؤ ڈال کر کشیدگی روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، وہ صرف درخواست ہی کر سکتا ہے، لیکن وہ بھی اس وقت جب پاکستان کو کہا جائے کہ وہ ثالثی کروا کر کشیدگی کم کرے۔'
دوسری جانب سینیئر سفارتی صحافی شوکت پراچہ سمجھتے ہیں کہ زمینی جنگ کا امکان نہیں بلکہ معاملہ پراکسی وار تک محدود رہے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'جس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے آخری دنوں میں دفاعی تعیناتیاں کی ہیں، اس سے خطرہ یقینی طور پر بڑھ رہا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ایران کے خلاف کارروائی نہ کردیں، لیکن زمینی جنگ ہونے کا کوئی چانس نہیں، معاملہ پراکسی وار کی طرف جائے گا۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان کی معلومات کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو اس کی فکر ہے کیونکہ پاکستان ابھی تک افغانستان بحران سے نہیں نکل پایا، اس لیے پڑوس ملک میں کسی اور بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔'
انہوں نے مزید کہ: 'چونکہ ایران کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اس لیے اس میں پاکستان براہ راست کردار ادا نہیں کر سکتا لیکن اگر عرب ممالک اور ایران کے درمیان کشیدگی اسرائیلی دباؤ پر بڑھتی ہے تو پاکستان دونوں اسلامی ممالک سے درخواست کر سکتا ہے لیکن زمینی جنگ اس صورت حال میں بھی نہیں ہو سکتی۔ پراکسی وار ہی ہو سکتی ہے اور پراکسی وار میں کوئی تیسرا ملک کردار ادا نہیں کر سکتا۔'
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اس وقت سب سے ضروری یہ ہے کہ پاکستان ایران سرحد پر بارڑ کا کام جلد از جلد مکمل ہو تاکہ پراکسی وار کی صورت میں بھی غیر ملکی عناصر پاکستان میں داخل نہ ہو سکیں۔