چین کے شہر بیجنگ میں ایک طاقت ور میڈیا شخصیت کے خلاف جنسی ہراسانی کے مقدمے کا آغاز ہوا جسے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانی والی خاتون نے ملک کی ’می ٹو‘ موومنٹ میں ایک اہم لمحہ قرار دیا۔
27 سالہ ژو سیاوسوان نے 2018 میں سوشل میڈیا پر طوفان مچا دیا تھا جب انہوں نے الزام لگایا کہ مشہور ٹی وی میزبان ژوو جون نے انہیں نامناسب طریقے سے چھوا اور زبردستی بوسا لیا جب وہ سرکاری چینل ’سی سی ٹی وی‘ میں بطور انٹرن کام کر رہی تھیں۔
مئی میں منظور ہونے والے چین کے پہلے سول کوڈ میں جنسی ہراسانی کی تعریف کو مزید وسیع کیا گیا تاہم اب بھی بہت سی خواتین اس حوالے سے سامنے آنے سے ہچکچاتی ہیں اور اس طرح کے کیسز عدالت تک کم ہی پہنچتے ہیں۔
بدھ کو عدالت کی سماعت سے پہلے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ژو سیاوسوان نے کہا: ’میں بہت گھبرائی ہوئی ہوں، مگر چاہے ہم کیس جیتیں یا ہاریں، یہ بہت معنی خیز ہے۔ اگر ہم ہار گئے تو کم سے کم اس سے جو سوال ہم نے اٹھائے ہیں وہ تاریخ میں تو درج ہو جائیں گے۔ کوئی تو ہمیں جواب دے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ 2014 میں جب وہ ’سی سی ٹی وی‘ میں انٹرن تھیں تو ایک دن وہ ایک ڈریسنگ روم میں ژوو جون کے ساتھ تھیں جب انہوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ انٹرن شپ کے بعد چینل میں کام جاری رکھنا چاہیں گی اور پھر انہیں نامناسب انداز میں چھوا اور زبردستی چومنے کی کوشش کی۔
ژوو جون دیگر شوز کے ساتھ ساتھ چین کے سالانہ سپرنگ فیسٹیول گالا کے سابق میزبان ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی شوز میں سے ایک ہے۔
وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور انہوں نے ژو سیاوسوان کے خلاف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کیا ہوا ہے۔
بدھ کو عدالت کے باہر سُو کے قریب افراد ژو سیاوسوان کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’می ٹو‘ اور ’ہم جنسی ہراسانی کے خلاف ہیں‘ کے نعرے درج تھے۔
ایک خاتون لوسی لو نے اے ایف پی کو بتایا: ’چاہے جو بھی ہو ہمیں سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بہادر ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرائل کے آغاز سے پہلے اپنے حمایتیوں سے بات کرتے ہوئے ژو سیاوسوان آنسووں کے ساتھ کہا: ’ہم خوش بھی ہو سکتے ہیں اور ہار بھی سکتے ہیں، مگر برائے کرم میری ہار کو دل پر مت لیجیئے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں اس بات کا یقین کرنا ہے کہ اگر تاریخ خود کو دہھراتی بھی ہے تو حالات ضرور بدلیں گے۔‘
تاہم عدالت کے باہر پولیس نے ان کے حامیوں کو پوسٹر اٹھانے سے منع کیا اور نہ ماننے پر انہیں کھینچتے ہوئے لے گئے جبکہ غیر ملکی رپوٹروں بشمول اے ایف پے کو حراست میں لیا۔
ژو سیاوسوان کے کیس کو پہلے ’پرسنیلٹی رائٹس‘ کے قانون کے تحت فائل کیا گیا تھا جس میں کسی شخص کے جسم اور صحت کے حوالے سے حقوق شامل ہوتے ہیں، مگر ان کے وکلا نے درخواست کی کہ ان کے کیس کو نئے قانون کے تحت سنا جائے۔
وہ ان کچھ لوگوں میں ہیں جو 2018 میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں تب سامنے آئیں جب ’می ٹو موومٹ‘چین میں بھی قدم جما رہی تھی۔
جب وہ ابتدا میں پولیس کے پاس گئیں تو انہیں کہا گیا کہ اس کے بارے میں بات کرنا سرکاری ٹی وی سی ساکھ خراب کرے گا اور ان کے دل دکھائے جو ژوو جون سے عقیدت رکھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’یہ تجربے آپ کو ایسا محسوس کرواتے ہیں کہ آپ کے وجود کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ کے جسم کو پہنچائے گئے نقصان توثیق دوسرے فریق کی شہرت اور طاقت سے نہیں کر سکتے۔‘
چین کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین اب بھی اس پر بات کرنے سے ڈرتی ہیں کیونکہ متاثرہ لوگوں کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
مگر ژو سیاوسوان کو اس کیس کو شروع کرنے پو کوئی پچھتاوا نہیں چاہے وہ ہار ہی کیوں نہ جائیں، ان کو امید ہے کہ اس سے اور خواتین کو آواز اٹھانے میں مدد ملے گی۔