ڈاکٹر محسن علی پاکستان میں چین کی تیار کردہ کرونا (کورونا) ویکسین کے ٹرائلز پروگرام میں شامل رضاکاروں اور ان ٹرائلز میں حصہ لینے کے خواہش مندوں سے کئی سازشی مفروضے سن چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگ کرونا ویکسین کے حوالے سے عجیب و غریب سوال کرتے ہیں جیسے کہ ’کیا یہ ویکسین بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دے گی؟ کیا یہ مار ڈالے گی؟ کیا اس میں کوئی فائیو جی چپ چھپی ہے؟ کیا یہ لوگوں کے ذہن کنٹرول کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے؟‘
ڈاکٹر محسن نے اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ ایسے بہت سے سوالوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ’میں کوشش کرتا ہوں کہ منطق سے ان سوالوں کا جواب دوں لیکن کچھ لوگ پھر بھی نہیں مانتے۔‘ شفا ہسپتال پاکستان کے ان ہسپتالوں میں شامل ہے جہاں اس ویکیسین کے فیز تھری ٹرائلز ہو رہے ہیں۔ اس ویکسین کو ’کین سائنو بائیو لوجکس اے ڈی فائیو این کوو‘ کا نام دیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے پاکستان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ویکسین خریدنے کی تیاری شروع کر دی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا پاکستان کین سائنو خریدے گا یا کوئی اور ویکسین۔ پریشان کن طور پر گیلپ پاکستان کے گذشتہ مہینے کیے گئے سروے کے مطابق 37 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کے دستیاب ہونے کے باوجود اسے استعمال نہیں کریں گے۔
ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال گیلانی کا کہنا ہے کہ ’ویکیسن کے بارے میں پائی جانے والی تاریخی مزاحمت کے سامنے یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا ویکسین کے دنیا بھر میں اس کے استعمال پر منحصر ہے۔‘ ویکسین مخالف جذبات کا مقابلہ کرنا ایک عالم گیر مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں یہ باقی ممالک کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔
پاکستان میں پولیو ویکسینیشن مہموں کے دوران ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد قتل ہو چکے ہیں اور عدم اعتماد اور خوف کی اس فضا کی وجہ سے افغانستان کے علاوہ صرف پاکستان وہ ملک ہے جہاں ابھی تک اس بیماری کا خاتمہ نہیں ہوا۔ سال میں کئی بار چلائی جانے والی پولیو ویکسینیشن مہم میں ہر بار لاکھوں بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں لیکن کئی جگہ والدین ایسے ہی سازشی مفروضوں کے باعث اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
ملک کے دور دراز علاقوں میں مذہبی شدت پسندی بھی پولیو مہم میں شامل رضاکاروں پر حملوں کی ایک وجہ ہے۔ خاص طور پر 2011 میں اسامہ بن لادن کو کھوجنے کی خاطر امریکی سی آئی اے کا ایک ڈاکٹر کو جعلی پولیو مہم میں استعمال کرنے سے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔
عدم اعتماد
گو کہ پولیو کے خطرات دہائیوں سے معلوم ہیں لیکن کووڈ 19 ایک نئی بیماری ہے اور حکام اس کے جلد خاتمے کا پیغام موثر انداز میں پہنچانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ سعودی عرب کی الجوف یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پاکستان میں ویکسینز کا مطالعہ کرنے والے توقیر حسین ملہی کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ابھی تک کووڈ19 کو بیماری نہیں مانتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی معاشی مشکلات کے باعث ایک ملک گیر لاک ڈاؤن چند ہفتوں کے بعد ہی ختم کر دیا گیا تھا جبکہ عوامی مقامات، بازاروں اور مساجد میں سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ رہا۔
کرونا وبا کی دوسری لہر میں کیسز کی تعداد میں ہول ناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سوموار کو 2885 نئے کیسز اور 89 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں، جس کے بعد ملک میں کرونا کیسز کی کُل تعداد چار لاکھ 23 ہزار جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 8500 سے تجاوز کر گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان درکار ٹیسٹنگ سے بہت کم تعداد میں ٹیسٹ کر رہا ہے۔
حکومت کو سماجی اور قانونی مسائل پر مشورے دینے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ کووڈ19 کے بارے میں کئی سازشی مفروضے مغربی ممالک سے جنم لے رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل رہے ہیں۔
انہوں نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سکالرز کی اکثریت کہہ چکی ہے کہ ویکسین اور علاج بہت ضروری ہے لیکن پھر بھی کچھ انتہا پسند موجود ہیں جیسے کہ پولیو کے معاملے میں۔‘ انہوں نے مشورہ دیا کہ ملک میں مغرب کے بارے میں پائی جانے والی ’بدگمانی‘ کی وجہ سے بہتر ہے کہ پاکستان امریکہ اور برطانیہ کی بجائے روس یا چین سے ویکسین حاصل کرے۔