دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑنے والے کرونا (کورونا) وائرس کو اس وقت ایک بازو سے محروم کر دیا گیا جب اس کے سامنے آنے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں کئی قسم کی ویکسینوں پر تحقیق کے بعد ان کی پیداوار تیزی سے جاری ہے۔
اس کے باوجود دس میں سے چار امریکی اور دس میں سے چھ فرانسیسی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین نہیں لیں گے، چاہے وہ مفت ہی کیوں نہ ہو۔
ہم پچھلی دو صدیوں کے دوران تیار کی جانے والی ویکسینوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں جن کے بارے میں شکوک و شبہات کبھی بھی ختم نہیں ہوئے۔
مہلک اور انتہائی متعدی چیچک کھلے زخموں کے ذریعے پھیلا، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوا اور اس نے کئی صدیوں تک دنیا کو نشانہ بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ برطانوی ڈاکٹر ایڈورڈ جینر نے نشاندہی کی کہ دودھ پلانے والی خواتین جو کبھی چھاتیوں کی بیماری کا شکار ہوئی ہیں، انہیں کبھی بھی چیچک نہیں ہوتا۔
1796 میں وہ اس بیماری کے بے ضرر ورژن کو ایک بچے کے مدافعتی نظام کو متحرک کرنے کے لیے اس کے جسم میں داخل کرتے ہیں۔ بار بار ایسا کرنے کے باوجود بھی وہ بچہ کبھی بیمار نہیں ہوتا اور اس طرح ویکسین کی شروعات ہوتی ہے۔
1853 میں تمام برطانوی بچوں کے لیے چیچک کی ویکسین لازمی قرار دی گئی لیکن اس کا فوری طور پر رد عمل سامنے آتا ہے اور بہت سے لوگ مذہبی وجوہات کی بنا پر اعتراض کرتے ہیں یا اس پالیسی کو شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
1898 میں قانون میں اضافی شق شامل کی گئی تاکہ اس کے لیے لوگوں کی رضامندی کو مدنظر رکھا جائے۔
فرانسیسی سائنس دان لوئس پاسچر نے بیماری کے زیادہ خطرناک جینز سے ریبیز کی ویکسین تیار کی۔ پاگل کتوں کے کاٹے ہوئے بچوں میں یہ ویکسین کامیاب ثابت ہوئی۔
ویکسینوں کے ناقدین کی جانب سے پاسچر پر منافع کمانے کے لیے 'لیبارٹری ریبیز' تیار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
اسی طرح ٹائیفائیڈ کے خلاف ایک ویکسین 19 ویں صدی کے آخر میں تیار کی گئی، جس کے بعد 1920 کی دہائی میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی گئیں اور 1921 میں تپ دق کے خلاف، 1923 میں خناق کے خلاف، 1926 میں تشنج اور 1926 میں کھانسی کی ویکسین کی تیار کی گئی۔
1920 کی دہائی میں بھی ایلومینیم کے ایجنٹس کو کارکردگی بڑھانے کے لیے پہلی بار ویکسین میں استعمال کیا گیا، یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں خاص طور پر فرانس میں ویکسین سے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
موسمی فلو کے خلاف پہلی ویکسین مہم کا آغاز 45-1944 میں یورپ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے کیا گیا جنہیں ہر سال ایک نئی ویکسین کے انجیکشنز دیے جاتے۔
1950 کی دہائی میں، جب پولیو سے بچاؤ کی ویکسینیشن امریکی حکومت کی ترجیح تھی، اس وقت کے میگاسٹار ایلوس پریسلی نے خود کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا اور پرائم ٹائم ٹی وی پروگرام ’ایڈ سلیوان شو‘ میں سب کے سامنے اس ویکسین کا انجیکشن لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1970 کی دہائی میں سوائن فلو کی وجہ سے ہونے والے تباہ کاریوں سے تحفظ دینے کے لیے امریکیوں کو ویکسین دینے کی مہم شروع کی گئی تاہم جب اس وبائی مرض میں مدد نہیں مل سکی اور ویکسین حاصل کرنے والوں میں سے 450 افراد غیر ضروری طور پر فالج کا سبب بننے والے گیلین بیری سنڈروم کا شکار بن گئے تو ویکسین مہم کے خلاف مزید شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔
چیچک کا آخری کیس صومالیہ میں 26 اکتوبر 1977 کو تشخیص کیا گیا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے عالمی سطح پر ویکسینیشن مہم کی بدولت 1989 میں اس بیماری کے باضابطہ طور پر ختم ہونے کا اعلان کیا تھا۔
افریقہ میں پولیو کے خاتمے کے لیے اسی طرح کی مہم بے حد کامیاب رہی ہے۔ پوری دنیا میں ختم ہونے کے بعد پولیو کا مرض اب صرف پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے کیونکہ کچھ مذہبی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ ویکسین مسلمانوں بچوں میں افزائش نسل کی قابلیت کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔
1998 میں ایک نامور میڈیکل جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ایم ایم آر (خسرہ، ممس اور روبیلا) ویکسین اور آٹزم کے مابین ایک ربط کا دعویٰ کیا گیا۔
تاہم اس تحقیق کے مرکزی خیال کو اس کے اپنے مصنف اینڈریو ویک فیلڈ نے غلط قرار دے دیا تھا۔ ویک فیلڈ کو بعد میں ان کے پیشے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھی ویکسین کی مخالفت کرنے والے گروپ اس مشکوک مطالعے کا حوالہ دیتے ہیں۔
2009 میں H1N1 یا سوائن فلو کی وبا سے پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئی تھیں۔ اگرچہ 1918 کے فلو کے مقابلے میں یہ وائرس کم مہلک ثابت ہوا اور اس سے دنیا بھر میں صرف 18،500 افراد ہلاک ہوئے۔
لاکھوں غیر استعمال شدہ ویکسینوں کا ضائع ہونا بھی عالمی ادارہ صحت پر تنقید کا سبب بنتا ہے۔
اس کے علاوہ سویڈن، جہاں 60 فیصد سے زیادہ آبادی کی ویکسینیشن کی گئی تھی، میں سینکڑوں افراد ناکولیپسی (نیند کی حالت) کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔