نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں منگل کو ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے کرونا (کورونا) ویکسنیشن کا آغاز ایک نوے سالہ خاتون سے کر دیا۔
گرینڈ مدر مارگریٹ کینان کو کوونٹری میں صبح ساڑھے چھ بجے ویکسین کی ڈوز دی گئی، جو بڑے پیمانے پر ویکسینشن کا ایک تاریخی عمل ہو گا۔ برطانیہ کا محکمہ صحت دنیا میں فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ ویکسین استعمال کرنے والا پہلا محکمہ ہے جو ٹرائلز کے دوران 95 فیصد موثر ثابت ہوئی تھی۔
کوونٹری کے مقامی ہسپتال میں پارسنز نامی نرس نے ویکسینیشن کے اس عمل کا معائنہ کیا۔ مس کینان، جو اگلے ہفتے 91 سال کی ہو جائیں گی ، جیولری کی دکان پر بطور اسسٹنٹ کام کرتی تھیں اور صرف چار سال پہلے ریٹائر ہوئی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی اور بیٹا جبکہ چار نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں کووڈ 19 کی ویکسین لگوانے والی پہلی فرد ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں۔ یہ میری سالگرہ کا بہترین تحفہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ایک سال زیادہ تر اکیلے رہنے کے بعد اب میں نئے سال میں آرام سے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ وقت گزار سکتی ہوں۔ میں مے اور این ایچ ایس سٹاف کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے میرا بہت خیال رکھا اور ویکیسن لینے والوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اگر میں 90 سال کی عمر میں یہ ویکسین لے سکتی ہوں تو آپ بھی لے سکتے ہیں۔‘
این ایچ ایس انگلینڈ کے چیف ایگزیکٹیو سر سائمن سٹیونز نے نئے ویکسینیشن پروگرام کو ’تاریخی کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ’نئے مرض کی پہلے کیس کی تشخیص کے ایک سال سے بھی پہلے این ایچ ایس نے پہلی کلینکل منظور شدہ ویکسین استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ایک شاندار کامیابی ہے۔ ہر اس فرد کا شکریہ جس نے اسے حقیقیت بنانے میں کردار ادا کیا، سائنس دان اور ڈاکٹر جنہوں نے اس پر انتھک کام کیا اور وہ رضاکار جنہوں نے ان ٹرائلز میں بے غرضی سے حصہ کیا۔
’انہوں نے چند ماہ میں وہ حاصل کر لیا جو سالوں میں حاصل کیا جاتا تھا۔ ملک بھر میں محکمہ صحت میں کام کرنے والے میرے ساتھیوں کو اس تاریخی لمحے پر فخر ہے جب ہم فائزر بائیو این ٹیک کی ویکسین استعمال کر رہے ہیں۔ میں مارگریٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو این ایچ ایس سے ویکسین لینے والی پہلی مریض ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم کا پہلا قدم اٹھایا گیا ہے، ایسی مہم اس ملک میں پہلے کبھی نہیں چلائی گئی۔ اس کو مکمل کرنے میں کچھ ماہ کا وقت لگے گا اور تب تک مزید ویکسین کی رسد بھی دستیاب ہو جائے گی تب تک ہمیں احتیاطی تدابیر کو نہیں چھوڑنا ہو گا۔ اگر ہم آنے والے مہینوں اور ہفتوں میں ہوشیار رہیں تو ہم اس وائرس کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکے کو مڑ کر دیکھ سکیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این ایچ ایس کی نرس مے پارسننز کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ میں ملک میں پہلی فرد ہوں جس نے کسی مریض کو یہ ویکسین لگائی۔‘
یونیورسٹی ہسپتال کوونٹری اور واروک شائر این ایچ ایس ٹرسٹ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ پورے ملک میں کسی مریض کو ویکسین لگانے والی پہلی فرد میں ہوں۔ میں خوش ہوں کہ اس تاریخی دن پر میں نے اپنا کردار ادا کیا۔ گذشتہ کچھ مہینے این ایچ ایس کے لیے کام کرنے والوں کے لیے بہت مشکل رہے ہیں لیکن اب اندھیرے کے بعد روشنی دکھائی دے رہی ہے۔‘
مے پارسننز کا تعلق فلپائن سے ہے اور وہ 24 سال سے این ایچ ایس کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مختلف مراحل میں مکمل کی جانے والی اس ویکسینیشن پروگرام میں 80 سال اور اس سے زائد عمر کے ان افراد کو سب سے پہلے یہ جان بچانے والی ویکسین دی جائے گی جو ہسپتال میں موجود ہیں یا جنہیں ہسپتال سے برخاست کر کے گھر بھیجا جا رہا ہے۔
کیئر ہومز میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کے لیے بھی محکمہ صحت اور سوشل کیئر کو ویکسینیشن کلینکس میں بکنگ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جی پیز سے جلد ہی کیئر ہومز میں مقیم افراد کی ویکسینشن شروع کرنے کی توقع ہے۔ ان افراد کی جانب سے کسی اپائٹمنٹ کو استعمال نہ کرنے کی صورت میں کووڈ 19 کے خطرے کا ممکنہ شکار طبی عملے کو یہ ویکسین فراہم کی جائے گی۔
محکمہ صحت کے سربراہان نے اس بڑے ہدف کے لیے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے جن میں ہسپتالوں، ویکسینیشن سینٹرز اور دوسرے کمیونٹی مقامات سمیت جنرل فزیشنز کے دفاتر اور فارمیسیز کو ویکسینیشن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ جان بچانے والی یہ ویکسین عام طور پر انجکشن کے ذریعے بازو میں لگائی جائے گی لیکن تیار کنندہ کی جانب سے اسے مریضوں تک پہنچانا ایک مشکل چلینج ہو گا۔ اس ویکسین کو منفی 70 ڈگری پر محفوظ رکھنا پڑے گا اور یہ استعمال سے قبل صرف چار بار منتقل کی جا سکے گی۔
© The Independent