ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کئی غیر معمولی دعوؤں سے بھری پڑی ہے جن میں سے بہت سے دعوے کمانڈر ان چیف کے اپنے ہیں لیکن ان میں سے کچھ دعوے ایسے بھی ہیں جن کا اس دنیا سے بھی دور کا واسطہ ہے۔
تاہم اسرائیل کے سابق خلائی سکیورٹی چیف کے مطابق امریکی صدر کے سب سے بڑا راز کا تعلق شاید فلکیات سے ہے یعنی خلائی مخلوق کے وجود کے بارے میں۔
ہائم ایشد نے اسرائیل کے اخبار ’یدیوٹ آہرونٹ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی حکومت کا خلائی مخلوق کی ’کہکشائی فیڈریشن‘ کے ساتھ ’معاہدہ‘ ہے، لیکن صدر ٹرمپ اس حقیقت کو افشا نہیں کریں گے کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ انسانیت یہ سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
’یروشلم پوسٹ‘ نے ایشد کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بظاہر یہ معاہدہ خلائی مخلوق کو ’کائنات کے تانے بانے‘ کی تحقیق اور اسے سمجھنے کی اجازت دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اس انٹرویو میں ایشد نے اپنی نئی کتاب ’دی یونیورس بیونڈ دا ہورائزن، کنورسیشن ود پروفیسر ہیم ایشد‘ کے بارے میں بات کی، جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ ’کائنات کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والی خلائی مخلوق پہلے سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت اور خلائی فیڈریشن کے مابین تعاون کے معاہدوں میں ’مریخ کی گہرائیوں میں قائم ایک بیس‘ بھی شامل تھا جہاں امریکی خلابازوں اور خلائی مخلوق کے نمائندوں کے دومیان ملاقاتیں ہوتی ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی کہا ہے کہ خلائی مخلوق نے ایٹمی ہولوکاسٹس کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کتاب میں ذکر کرتے ہیں کہ ’ہم کب اس میں شامل ہو کر ’مین اِن بلیک‘ میں جا سکتے ہیں۔‘
اسرائیل کے خلائی سکیورٹی پروگرام کے سربراہ کے طور پر تقریباً 30 سال تک خدمات انجام دینے والے ایشد نے اصرار کیا کہ صدر ٹرمپ نے کہکشائی فیڈریشن کے وجود کا انکشاف جان بوجھ کر نہیں کیا کیونکہ انہیں اس فیڈریشن نے ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹس کے مطابق کہکشائی فیڈریشن نے ہماری دنیا کو وسیع پیمانے پر خوف و ہراس سے بچانے کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسانیت کو ابھی مزید ’ارتقا اور اس مرحلے تک پہنچنے کی ضرورت ہے جہاں ہم خلائی مخلوق اور سپیس شپ کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں۔‘
ایشد نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ انہوں نے اب اس معلومات کو ظاہر کرنے کا انتخاب اس وجہ سے کیا ہے کیوں کہ ان کے مطابق تعلیمی منظر نامہ تبدیل ہوا ہے اور اس لیے بھی کیوں کہ انہیں اس شعبے میں احترام حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ پانچ سال قبل اپنے اس دعوے کا اظہار کر دیتے تو انہیں ’ہسپتال میں داخل کرا دیا جاتا۔‘
انہوں یہ بھی کہا کہ ’ڈگری اور ایوارڈز حاصل کرنے کے بعد‘ اب ان کے پاس ’کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔‘
تاہم ان کے دعوؤں کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
برطانوی وزارت دفاع کے ایک سابق ڈویژن کے لیے یو ایف اوز پر تحقیقات کرنے والے نک پوپ نے ’این بی سی نیوز‘ کو بتایا کہ یہ دعوے یا تو ایشد کی کتاب فروخت کرنے میں مدد کے لیے ’مذاق ہے یا پھر ایک پبلسٹی سٹنٹ۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید ایشد کے الفاظ کا غلط ترجمہ کیا گیا ہو یا کسی جاننے والے شخص نے اپنے رینک کی خلاف ورزی کی ہو۔
پوپ نے کہا کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ایشد ذاتی معلومات اور تجربے کی بنیاد پر براہ راست اس حوالے سے بات کر رہے تھے یا وہ وہی باتیں دہرا رہے تھے جو انہیں بتائی گئی تھیں۔ ’اس پہیلی کے کچھ لاپتہ ٹکڑے ملنا ابھی باقی ہیں۔‘
ناسا کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس ایجنسی کا ایک اہم مقصد وسیع کائنات میں زندگی کی تلاش تھا تاہم وہ ابھی تک اس کے آثار تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اگرچہ ہمیں ابھی بھی دنیا سے باہر زندگی سے متعلق کوئی آثار نہیں مل پائے ہیں لیکن ناسا نظام شمسی اور اس سے باہر بھی ان بنیادی سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلی مخلوق ہیں۔‘
© The Independent