ملاوی دنیا کا پہلا ملک بننے جارہا ہے، جہاں عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے بچوں کو ملیریا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کی مہم کا آغاز کیا جائے گا۔
غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے واقع اس افریقی ملک میں ملیریا سے بچاؤ کی اس مہم کو ’تاریخ ساز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اگرچہ ویکسین صرف ایک تہائی بچوں میں ہی کارآمد دیکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود جہاں ہر برس ساڑھے چار لاکھ کے قریب اموات ملیریا سے ہوتی ہوں وہاں ایک تہائی کی فیصدی اہمیت اچھی خاصی بڑھ جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر پیڈرو الونسو کے مطابق ایسے ویکسینیشن پروگرام کینیا اور گھانا میں بھی شروع کیے جائیں گے جہاں اس مہم کا دائرہ کار ساڑھے تین لاکھ بچوں تک پھیلائے جانے کا امکان ہے۔
ویکسین کی اثر پذیری کم ہونے کے باوجود پیڈرو الونسو کہتے ہیں کہ فی الوقت چونکہ اس سے بہتر ویکسین دستیاب نہیں ہے، اس لیے ہم انتظار کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔
’موسکی رکس‘ کے نام سے بنائی جانے والی یہ ویکسین 2015 میں دواساز ادارے گلیکسو سمتھ کلائن کی جانب سے پیش کی گئی تھی جسے یورپین میڈیسن ایجنسی نے 2015 میں قابل استعمال قرار دیا تھا۔
موسکی رکس پر کیے گئے ایک ٹرائل میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 4 انجکشنوں پر مشتمل اس ویکسین کا مکمل کورس کرنے کے بعد یہ صرف 30 فیصد بچوں کو ملیریا سے محدود تحفظ دے پائی تھی۔ وہ تحفظ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے مدافعتی نظام سے غائب ہوتا دیکھا گیا تھا۔
30 سال کی تحقیق اور ایک ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کی جانے والی اس ویکسین کے 10 لاکھ انجیکشن ملاوی مہم میں استعمال کیے جائیں گے، جو دواساز ادارے کی جانب سے مفت مہیا ہوں گے۔ ادارہ مزید ایسے پروگراموں کے لیے بین الاقوامی تعاون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
لیورپول سکول آف ٹروپیکل میڈیسن کے سربراہ ایلیسٹر کریگ کا کہنا تھا: 'اگرچہ یہ ویکسین پوری طرح موثر نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ لاکھوں انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔'
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مہنگی ویکسین اپنی جگہ پر لیکن ملیریا سے لڑنے کے لیے جو محدود فنڈ غریب ممالک کی حکومتوں کے پاس ہے اسے روایتی طریقوں سے استعمال کرنا زیادہ مفید رہے گا۔
مچھر دانیاں اور مچھر مار ادویات تیسری دنیا کے ممالک میں ملیریا کنٹرول کے روایتی طریقے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک ویکسین کے ساتھ ساتھ روایتی طریقے پوری شدت سے استعمال ہوتے رہیں گے، تب تک یہ کام ٹھیک ہے اور جہاں ویکسین پر انحصار بڑھایا گیا وہاں مسائل شروع ہو سکتے ہیں۔
ملاوی میں صحت عامہ کے ایک اہلکار کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ والدین کو ایک ایسی ویکسین چار دفعہ لگوانے کے لیے قائل کیسے کیا جائے جو ہر تین میں سے ایک بچے کے لیے فائدہ مند سمجھی جا سکتی ہے اور وہ فائدہ بھی ایک محدود مدت کے لیے ہو گا۔
پولیو، خسرہ یا دوسری بیماریوں کے خلاف استعمال کی جانے والی ویکسینوں کی اثر پذیری عام طور پر 90 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایلیسٹر کریگ نے اس بات پہ زور دیا کہ یہ ویکسین محدود اثر پذیری کے باوجود بہت سی انسانی جانیں بچا سکتی ہے اور طب کے شعبے میں تحقیق کی بہت سی نئی راہیں کھول سکتی ہے۔