جب 1947 میں بھارت سے کشیدگی کے بعد گلگت بلتستان کے گرد و نواح میں جنگ کا آغاز ہوا تو اس وقت محمد امین سندس کے رہائشی تھے اور تب وہاں آزادی فورس کے جوانوں کو بھرتی کیا جا رہا تھا۔
آزادی فورس کے کمانڈر میجر احسان علی اور کیپٹن بابر خان بھی اسی گاؤں میں رہتے تھے۔
محمد امین نے خود کو رضاکارانہ طور پر جنگ لڑنے کے لیے پیش کیا۔
اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ اور یہ جنگ 1949 تک جاری رہی۔
حالانکہ گلگت بلتستان آزاد ہو چکا تھا اور جنگ بندی بھی ہو چکی تھی لیکن یہ فورس پدم میں دشمن کے محاصرے میں رہ کر لڑائی لڑ رہی تھی۔ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جنگ بندی کا علم نہیں تھا۔
محمد حسن حسرت جو محقق اور لکھاری ہیں اور محمد امین کا انٹرویو بھی کر چکے ہیں، اس جنگ کے حوالے سے کہتے ہیں:
’جب محمد امین نے خود کو رضاکارانہ طور پر لڑنے کے لیے پیش کیا تو بابر خان جو فوج کے کیپٹن تھے، انہوں نے یہ کہہ کر محمد امین کو رضا کار بھرتی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آپ عمر میں بہت چھوٹے ہیں اور رائفل آپ سے بڑی ہے، آپ رائفل انہیں اٹھا سکیں گے۔ وہ بڑے ضدی قسم کے لڑکے تھے۔ انہوں نے بابر خان سے کہا کہ میں اپنی رائفل خود اٹھا کر لے جاوں گا، آپ لوگوں کو زحمت ہرگز نہیں دوں گا اور میں فائر بھی کر سکتا ہوں۔ آپ مجھے ابھی نشانہ بتا دیں، میں فائر کرکے دکھاوں گا۔ بابر خان نے نہ چاہتے ہوئے ایک نشانہ رکھا اور ان سے فائر کرنے کو کہا۔ انہوں نے جب فائر کیا تو گولی ٹھیک نشانے پر لگی۔ اب بابر خان مجبور ہوگیا اور انہیں رضا کار بھرتی کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنگ کے حالات کے بارے میں محمد حسن حسرت کہتے ہیں کہ ’وہاں روز بروز ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا گیاتھا۔ ان کا رابطہ ہر طرف سے کٹ گیاتھا، اور موسم بھی بدل چکا تھا۔ وہاں سخت برفباری ہورہی تھی ، سردی اتنی ہوتی کہ وہ لوگ تھوک پھینکتے تو وہ جم کر بنٹے کی طرح زمین پر گرتا تھا۔ ان کے پہنے ہوئے کپڑے پھٹ چکے تھے اور وہ بے پردہ ہو چکے تھے۔ کہیں سے کوئی دری مل جاتی تو بوری سینے والے سوئے سے اسے شلوار بنا کر پہن لیتے تھے اور بھیڑ کی کھال سے واسکٹ بنا لیتے تھے۔ کھانے کے لیے ان کے پاس صرف آٹا موجود تھا اور کچھ بھی نہ تھا۔ وہ برف پگھلا کر کٹورے میں ڈالتے اور اس میں آٹا ڈال کر اسے پی لیتے تھے۔‘
محمد امین کے بھتیجے نمبردار علی شیر کہتے ہیں ’میرے دادا کی عمر لگ بھگ 87 سال تھی اور فالج کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے طویل علالت کے بعد کل 15 دسمبر 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔‘
’میرے دادا کہتے تھے جب ان کو پتہ چلا کہ جنگ بندی ہو چکی ہے اور گلگت بلتستان آزاد ہو چکا ہے تب وہ لوگ وہاں سے لوٹے۔ سکردو میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ گلگت میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات بھی ہوئی اور انہوں نے دس ہزار روپے نقد انعام بھی دیا۔ میرے دادا کو فوج میں بھی بھرتی بھی کیا گیا۔ عوام اور فوج کی طرف سے میرے دادا کو بہت عزت ملی۔ لوگ ان سے بہت پیار کرتے تھے۔‘