برطانوی آن لائن فیشن کمپنی’بوہو‘ (Boohoo) کا کہنا ہے کہ وہ گارڈین اخبار کی اس رپورٹ کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا کہ کمپنی کے پاکستان میں سپلائر گروپس اپنے کارکنوں کو کم معاوضہ ادا کر رہے ہیں۔
دا گارڈین کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں قائم دو فیکٹریوں میں بوہو کے لیے کپڑے بنانے والے کارکنوں کو ماہانہ صرف 10 ہزار پاکستانی روپے یا 62 ڈالرز ادا کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملکی قانون کے مطابق بھی کسی مزدور کی ماہانہ اجرت کم سے کم ساڑھے 17 ہزار روپے مقرر ہے۔
برطانوی اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے پاس کام کی جگہ پر غیر معیاری حفاظتی اقدامات اور کارکنوں کو درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے ویڈیو اور فوٹو گرافک شواہد موجود ہیں۔ ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے بوہو نے کہا کہ کمپنی نے فیصل آباد میں سپلائرز کو لے کر تحقیقات کے لیے آڈٹ فرم ’بیورو واریٹس‘ سے رابطہ کیا ہے۔
بوہو نے اپنے بیان میں مزید کہا: ’جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ہم گارمنٹس ورکرز سے بدسلوکی یا ان کو کم معاوضہ ادا کرنے جیسے اقدامات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے۔‘ بوہو کو رواں سال برطانیہ میں بھی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ کمپنی کے انگلینڈ میں ایک سپلائر نے ورکرز کو مقررہ اجرت سے کم ادائیگی کی تھی۔
پاکستان سے آنے والی رپورٹس کے بارے میں بوہو نے مزید کہا کہ اس نے پاکستان کے سپلائر گروپس ’جے ڈی فیشن‘ اور ’ایچ اے فیشن‘ سے تحقیقات کے دوران اپنی چین کے لیے سپلائی معطل کر دی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا: ’جو بھی سپلائر اپنے کارکنوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ان کے لیے ہماری چین میں کوئی جگہ نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دا گارڈین کی رپورٹ میں شامل پاکستانی فیکٹری ’مدینہ گلووز‘ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ فیکٹری کے مالک محمد سلیم شہزاد نے کہا کہ یہ الزامات ’بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’گراؤنڈ پر صورت حال یکسر مختلف ہے۔ (دا گارڈین کے) رپورٹر نے کبھی بھی میری فیکٹری کا دورہ نہیں کیا اور میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ فیکٹری کے کارکنوں میں سے کسی ایک کا بھی حوالہ پیش کر کے دکھائیں۔ میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر غور کر رہا ہوں۔‘
شہزاد نے مزید کہا کہ رپورٹ شائع ہونے کے بعد برطانیہ کے تین مختلف کلائنٹس کی جانب سے پہلے ہی آڈرز منسوخ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس رپورٹ نے ان کے ملازمین کے لیے کون سی خدمت انجام دی ہے جب کہ وہ (آڈرز منسوخ ہونے کے باعث) اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے۔‘