ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے فیشن ماڈلنگ ایک بہت ہی پرکشش شعبہ ہے۔ میں بھی ایک ایسی ہی دنیا میں پلی بڑھی جہاں ماڈلنگ کو بڑا خوش نما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ماڈلنگ ایک ایسا پیشہ ہے جسے اکثر پریوں کی کہانیوں کی طرح بیان کیا جاتا ہے۔ کمپنی کو آپ عام سی نوجوان لڑکی کی شکل میں ملتی ہیں اور وہ آپ کو کسی دیوی میں تبدیل کردیتی ہے جس کے بعد آپ فیشن شو کے دوران ریمپ پر کیٹ واک کرتی ہیں یا آپ کی تصاویر کسی چمک دار میگزین کے صفحات پر شائع ہوتی ہیں۔
اپنے تجربے کی بنیاد پر میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ یہ سب دھوکا ہے۔ خوبصورتی اور چکاچوند کے پیچھے میں نے اپنے آپ کو ایک ایسے پیشے میں پایا جہاں ترقی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہر زاویئے سے آپ کو اپنے استحصال کا احساس ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر آپ کو دماغی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں نے 13 برس کی عمر میں ماڈلنگ شروع کی۔ اُس وقت میری والدہ نے میری تصویر ماڈلنگ سے وابستہ ایک مقامی ادارے کو بھیجی۔ مجھے کئی برس تک ڈرایا دھمکایا جاتا رہا جس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ فیشن کی دنیا ویسی نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتی تھی۔
فیشن کی دنیا کے بارے میں زیادہ جان لینے سے پہلے ہی مجھے بتایا گیا کہ میری تصاویر بڑے فیشن میگزینوں میں سے چند ایک میں شائع ہوں گی۔ تصاویر چھپنے کے بعد فیشن ماڈل کے طور پر شروع ہونے والا کیریئر 10 برس سے زائد عرصے تک جاری رہا۔
ایک بات جو کوئی نہیں بتاتا وہ یہ ہے کہ بطور ایک ماڈل کام کے دوران آپ کے کمپنیوں کے ساتھ معاہدے یا دوسرے تجربات آپ کے بس میں نہیں ہوتے۔ ماڈلز کو اکثر اوقات جیتے جاگتے انسان کی بجائے ایک ’وجود‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو کسی بھی حیثیت میں ایک دن کے لیے کرائے پر لیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ماڈلنگ کرنے والی خواتین بھول جاتی ہیں کہ ان کے بھی حقوق ہیں۔
بس ایک اختیار جو آپ کے پاس رہ جاتا ہے وہ اشتہاری کمپنی کے انتخاب کا ہے۔ فیشن کی صنعت میں معیار کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا آپ کا انتخاب درست ہے یا نہیں۔
مثال کے طور پر میں نے اچھی ساکھ کی حامل ایک کمپنی کا انتخاب کیا لیکن جلد ہی مجھے پتہ چلا کہ مجھے بعض آزمائشی اور بلامعاوضہ شوٹس پر بھیج دیا گیا ہے۔
بعد میں میرے علم میں آیا کہ کمپنی نے میری خدمات کے عوض 4 سو پاؤنڈز تک رقم وصول کی تھی۔ مجھے بڑی برانڈز کے لیے کام کا تجربہ تھا اس لیے اس صورت حال کا مقابلہ کرسکتی تھی لیکن مجھے کمپنی کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک ہفتے بعد میرے اوپر ایک ہزار پاؤنڈ کا قرضہ تھا جبکہ معاوضے والا کام کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ میری ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور مجھے مسلسل خوف کے دورے پڑ رہے تھے۔ جب میں نے کمپنی کو چھوڑنے کی کوشش کی تو مجھے قانونی کارروائی کی دھمکی دی گئی۔
کام کے دوران مجھے کئی بار ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مجھے محض ایک ’وجود‘ بھی کہا گیا۔ ایک کلائنٹ نے میری بھنوؤں کے اونچا نیچا ہونے کی دو گھنٹے تک شکایت کی۔
جتنی بھی ماڈل گرلز کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت پر وزن میں کمی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
ایک مرتبہ جس کمپنی نے مجھے کام دیا اس نے مجھے کولہوں کے ابھار 3 انچ کم کرنے کے لیے کہا۔ میرے انکار پر 3 سینٹی میٹر کمی کی درخواست کی گئی۔ ہر ہفتے کولہوں کی پیمائش کی گئی اور یہ عمل کئی مہینے تک جاری رہا۔ ہر بار یہی کہا گیا کہ پیمائش میں کمی نہیں آئی۔ یہ صورت حال میرے لیے بڑی ذلت آمیز تھی۔ نتیجے کے طور پر میں نے اپنے آپ کو بے کار سمجھنا شروع کردیا۔
لوگ اکثر سجمھتے ہیں کہ بطور ماڈل گرل ہمارا جسم ہی سب کچھ ہے۔ ان کے ایسا سمجھنے نے جسم کے ساتھ میرے تعلق کو پیچیدہ بنا دیا۔ کھانے پینے میں بےقاعدگی کی وجہ سے میرا جسم شدید بے ڈھنگے کا شکار ہے۔ ماڈل گرلز اکثر جنسی ہراسانی اور استحصال کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔
شوٹنگ مکمل طور پر ہوٹل کے کمروں میں ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ماڈلز کے لیے خوشگوار نہیں ہوتی۔ ایک بار ہوٹل کے کمرے میں ایک کلائنٹ نے مجھے بے لباس ہونے کے لیے کہا۔ میں نے انکار کردیا۔ مجھے دبئی کے دورے کی پیشکش کی گئی جہاں ایک دن میں ہزاروں پاؤنڈ کمائے جاسکتے ہیں۔ ایک اور موقع پر شوٹنگ کے دوران مجھ پر شراب پی کر برہنہ تصویریں بنوانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
میں نے اپنے تجربات پر مبنی ایک کتاب لکھی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے عالمی سطح پر اس بحث کا آغاز ہوگا کہ ماڈلنگ کی صنعت کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔