امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ پینٹاگون (محکمہ دفاع) میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعینات کیے گئے لوگ ٹرانزیشن (منتقلی کے عمل) میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
ٹرانزیشن ٹیموں کی جانب سے جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کو قومی سلامتی کے بارے میں دی گئی بریفنگ کے بعد جو بائیڈن نے کہا کہ پینٹاگون میں سیاسی تقرریوں اور آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ نے 'رکاوٹیں' کھڑی کر رکھی ہیں۔
بائیڈن نے بریفنگ کے بعد بتایا: 'ہم وہ تمام معلومات حاصل نہیں کر رہے ہیں جو ہمیں سبکدوش ہونے والی قومی سلامتی کی انتظامیہ سے درکار ہیں۔'
'میرے خیال میں یہ غیر ذمہ داری سے کم نہیں ہے۔'
جو بائیڈن نے کہا کہ وہ دنیا بھر میں امریکی فوجیوں کی زبردستی تعیناتی کے بارے میں سبکدوش ہونے والی انتظامیہ سے واضح وضاحت کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا: 'ہمیں محکمہ دفاع اور دیگر ایجنسیوں میں بجٹ کی منصوبہ بندی کے بارے میں مکمل معلومات کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی الجھن سے بچا جاسکے یا ہمارے مخالفین فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکیں۔'
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات کو 'بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی' کے دعووں کے ساتھ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ انتخابات جو بائیڈن نے سات ملین ووٹوں سے جیتے تھے جبکہ انہیں 306 میں سے 232 الیکٹورل کالج ووٹ ملے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتخابات کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پینٹاگون کی قیادت میں تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جن میں برطرف سیکرٹری دفاع مارک ایسپر بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس سال کے شروع میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کو کچلنے کے لیے صدر ٹرمپ کی جانب سے طاقت کے استعمال سے خود کو دور کرلیا تھا۔
ٹرمپ کے نئے قائم مقام سیکرٹری دفاع کرس ملر نے کہا تھا کہ سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے جو بائیڈن کی ٹیم کے ساتھ تعطیلات کے دوران بریفنگ روکنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم آنے والی ٹیم نے اسے جھوٹا قرار دیا۔
ملر نے پیر کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرانزیشن ٹیم کے ساتھ پینٹاگون کی ہم آہنگی کی کوششوں کو تین ہفتوں میں عبور کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ دفاع کے عہدیدار اس منتقلی کی حمایت کے لیے 'شفاف اور اجتماعی انداز' میں کام جاری رکھیں گے۔
پینٹاگون میں آخری لمحے میں ٹرمپ کی جانب سے اپنے وفاداروں کی تعیناتی ایران کے ساتھ شدید تناؤ کے دوران ہوئی ہے، جسے ٹرمپ نے عراق میں امریکی سفارت خانے پر راکٹ حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ یہ راکٹ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب آئندہ ماہ جنوری میں اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی پہلی برسی ہونے جارہی ہے، جنہیں امریکہ کی جانب سے رواں برس بغداد میں قتل کردیا گیا تھا۔