نئے سال کے آغاز پر جب لاہور خوشی کے پٹاخوں کے شور سے گونج رہا تھا، اسی شور میں ڈیفنس فیز ون کے ایک گھر کے باہر تین گولیاں چلیں اور ایک بے زبان کی جان لے گئیں۔
ایمان راحیل 24 برس کی ہیں اور آٹزم میں مبتلا بچوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ انہیں جانوروں سے بھی محبت ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایمان نے بتایا کہ 31 دسمبر کی رات ان کے ہمسائے بیرسٹر احمد عمر ثاقب نے مبینہ طور پر اپنی رائفل سے ان کے پالتو کتے چک(Chuck) کے جسم میں تین گولیاں اتار کر اسے مار ڈالا۔ یہ کتا پٹ بل نسل کا تھا اور گذشتہ نو برس سے ان کا پالتو تھا۔
ایمان کا کہنا ہے: ’میں 31 دسمبر کی رات 12 بجے اپنی والدہ کے ساتھ آتش بازی دیکھنے کے لیے گھر سے نکلی، چک گھر کے اندر اپنے کینل میں سو رہا تھا، مجھے ساڑھے 12 بجے ابو نے فون کر کے بتایا کہ چک کو ہمارے ہمسائے نے گولی مار دی ہے۔
’میرے بھائی نے بتایا کہ انہوں نے گولی چلنے کی آواز سنی تو وہ بھاگ کر بالکونی میں آئے اور دیکھا کہ سڑک پر چک کی لاش پڑے تھی۔ گولیوں کی آواز سے ڈیفنس سکیورٹی بھی موقعے پر پہنچ گئی جبکہ بیرسٹر احمد نے میرے والد کو آ کر بتایا کہ ہمارے کتے نے ان کے مکان میں گھس کر ان کی چار سالہ بچی پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے انہوں نے اسے گولیاں ماری۔‘
ایمان کا کہنا ہے کہ جب وہ اور ان کی والدہ گھر پہنچیں تو احمد نے ان سے نازیبا زبان استعمال کی اور انہیں مارنے کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب پولیس موقعے پر پہنچی تو احمد نے بیان تبدیل کر کے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے کتے کو گھر کے باہر چہل قدمی کروا رہے تھے جب ہمارے کتے نے گھر کا دروزہ توڑ کر باہر چھلانگ لگائی اور ان پر حملے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں انہوں نے کتے کو گولیاں مار دیں۔
ایمان کا کہنا ہے کہ پولیس کے سامنے احمد نے کہا کہ ان کی تو بیٹی ہی نہیں اور وہ غیر شادی شدہ ہیں، ساتھ ہی انہوں نے پولیس سے کہا کہ ایمان کا کتا پٹ بل ہے اور وہ ایک انتہائی خطرناک نسل ہے جبکہ امریکہ میں اس نسل کے کتے کو گھر میں رکھنے پر پابندی ہے۔
ایمان کہتی ہیں کہ نو برس سے چک ان کا پالتو کتا تھا اور وہ گھر میں آنے والے بچوں کے ساتھ بھی دوستی رکھتا تھا جبکہ گھر کے دیگر پالتو جانوروں کے ساتھ بھی کھیلتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’رات میں ہم اس کی زنجیر کھول دیتے تھے اور وہ گھر کے اندر کھلا پھرتا تھا، اس کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ وہ گھر کے دروازے کو پھلانگ کر باہر نہیں جاسکتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ احمد قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل بھی رہ چکے ہیں اور اسی کو جواز بنا کر وہ انہیں دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو نے بیرسٹر احمد سے رابطے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کیس کی ایف آئی آری ڈیفنس فیز پانچ کے تھانے میں درج کر لی گئی ہے۔ ایس ایس پی انویسٹیگیشن عبدالغفار قیصرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’قریقین ایک دوسرے پر مختلف الزامات لگا رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں، تاہم ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے جس کے لیے میں نے تفتیشی افسر سے کہا ہے کہ میرٹ پر تفتیش کی جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملزم کے خلاف دفعہ 429 کے تحت مقدمہ درج کر گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے بعد ملزم ضمانت پر رہا ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں بتایا کہ وہ مکان کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے جب کتے نے ان پر حملہ کر دیا اور انہوں نے کتے کو مار دیا۔ ان کا کہنا تھا کیس کی مزید تفصیلات تفتیش کے بعد سامنے آئیں گی۔
ایمان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موقعے پر موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ احمد نے غیر لائسنس شدہ اسلحہ استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر اس کیس کے حوالے سے بازگشت جاری ہے۔ یہاں تک کہ وکلا کے ایک فیس بک گروپ میں بھی اس کیس کے حوالے سے کافی بات ہو رہی ہے۔ اس گروپ کے زیادہ تر ارکان نے بیرسٹر احمد اور ان کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک صارف کا کہنا تھا کہ بیرسٹر احمد کے خلاف پنجاب بار کونسل میں درخواست دی جانی چاہیے جبکہ ایک اور کا کہنا تھا کہ اگر وہ واقعی بیرسٹر ہیں تو ان کے خلاف یو کے بار میں بھی شکایت دینی چاہیے۔ دوسری جانب ایک اور صارف نے کہا کہ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کہ پٹ بل نسل کا کتا دوستانہ رویہ رکھ سکتا ہے کیونکہ ان کی فطرت میں ایسا نہیں ہے، وہ کسی بھی وقت جنگلی برتاؤ کر سکتے ہیں، اس لیے اگر بیرسٹر نے اپنے بچاؤ کے لیے اسے مارا ہے تو ٹھیک کیا۔
کچھ صارفین کا سوال تھا کہ کتا بغیر زنجیر یا کسی مالک کے رات کے وقت باہر کیا کر رہا تھا؟ اگر اسے مارا گیا تو اس کی کوئی بڑی وجہ ہو گی۔ کچھ صارفین کہتے ہیں کہ کتا چاہے پالتو ہو یا آوارہ اسے جان سے مار دینا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔