بھارت میں تیار کی گئی کرونا (کورونا) وائرس ویکسین پر اس کی افادیت اور آزمائشی استعمال سے متعلق کم تفصیلات کی بنا پر طبی ماہرین اور سیاسی حزب اختلاف کی جانب سے سوالا ت اٹھائے جا رہے ہیں۔
'کوویکسن' نامی ویکسین کے محدود پیمانے پر استعمال کی اتوار کو ہنگامی بنیادوں پر منظوری دی گئی تھی۔ بھارت نے جمعے کو ماہرین کی جانب سے سبزجھنڈی دکھائے جانے کے بعد پہلی منظوری آکسفورڈ، آسٹرازنیکا کے لیے دی تھی۔
اس کے فوری بعد 'کوویکسن' کی منظوری دی گئی, جو حیدرآباد میں قائم ادویات ساز کمپنی بھارت بائیوٹیک نے سرکاری ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے اشتراک سے تیار کی ہے۔
بھارت میں کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی خبر بھارت کے ڈرگز کنٹرول جنرل (ڈی سی جی آئی) نے سنائی جسے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور ان کی حکومت نے 'گیم چینجر' اور ملک کے'خود انحصاری' حاصل کرنے کے وسیع تر ایجنڈے کی فتح کے طور پر سراہا۔
تاہم ماہرین نے آزمائشی استعمال کے تیسرے مرحلے کی تکمیل یا افادیت سے متعلق تفصیلات کی اشاعت سے پہلے بظاہر ویکسین کے استعمال کی جلدی میں دی گئی منظوری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی حکام نے بائیوٹیک کی ویکسین کو آکسفورڈ - آسٹرازنیکا کا بیک اپ قرار دیا ہے، جو سخت نگرانی میں لگائی جائے گی اور صرف اس صورت میں لگائی جائے گی کہ جب ایسا دکھائی دے کہ ملک میں کرونا وائرس کے کیس بڑی تعداد میں بڑھ رہے ہیں۔
بھارت کے ڈرگرز کنٹرولر جنرل وی جی سومانی نے کہا ہے کہ ویکسین کی 'عوامی مفاد میں وافر احتیاطی تدابیر کے طور پر اور آزمائشی انداز میں استعمال کی منظوری دی گئی تا کہ ویکسین کے معاملے میں زیادہ راستے کھلے ہوں۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب نئی قسم کے وائرس سے ہونے والے انفیکشن کا سامنا ہو۔'
لیکن صحت کے شعبے کی نگرانی کرنے والے خود مختار ادارے آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک (اے آئی ڈی اے این) نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ویکسین کی منظوری پر 'ہل کر رہ گیا ہے۔' ادارے نے ڈی جی سی آئی پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
ادارے نے 'ویکسین کی افادیت سے متعلق ڈیٹا کی عدم موجودگی پر شدید تحفظات' کا اظہار بھی کیا۔ ادارے نے یہ بھی کہا کہ 'اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں کہ کوویکسن وائرس کی نئی قسم سے ہونے والے انفیکشن کی صورت میں مؤثر ہو گی۔'
اے آئی ڈی اے این نے بیان میں کہا: 'ایسی ویکسین کی منظوری جس کی افادیت کے بارے میں تحقیق مکمل نہیں ہوئی، کا فیصلہ چاہے وہ سارے عمل کی رفتار بڑھا کر کیا گیا ہو، جوابات کے مقابلے میں سوالات زیادہ پیدا کرتا ہے اور ممکن ہے کہ اس سے سائنس کے شعبے میں فیصلہ کرنے والے ہمارے اداروں پر اعتماد میں اضافہ نہیں ہوگا۔'
'صحت کے متعدد دوسرے ماہرین اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے بھی اپنی ٹویٹس میں اندرون ملک تیارکی گئی ویکسین کی منظوری پر اعتراض کیا ہے۔'
منی پل ہسپتال میں کام کرنے والے کنسلٹنٹ ڈاکٹر رگھورام ہگدے نے کہا: 'تیسرے مرحلے کے ٹرائلز مکمل ہونے سے پہلے ہی کوویکسن کی ہنگامی منظوری بھارتی سائنسی اداروں پر حملہ ہے۔یہ عمل بہت زیادہ سیاست اور شہ سرخیوں کی تلاش اور سائنسی انداز میں بہت کم سوچنا ہے۔'
ماہر امراض قلب ڈاکٹر ورن سی نے لکھا: 'میں آزمائش کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے سے بھی پہلے ویکسین کا متعارف کروانے کے معاملے میں اس حکومت پر بالکل حیران نہیں ہوا۔(اس لیے ویکسین کی افادیت نامعلوم ہے۔) یہ وہی حکومت ہے جس نے ہم سے کہاکہ بیماری سے بچنے کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئن (ملیریاکی دوا) لیں۔ حکومت نے وزارت آیوش (روائتی ادویات کی وزارت) کے قوت مدافعت بڑھانے کے دھوکوں کو فروغ دیا، نہیں آپ کا شکریہ، ہم سائنس کی جانب دیکھنے کا کہیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت کے ممتاز طبی ماہرین میں سے ایک، ڈاکٹرگگن دیپ کانگ نے اخبار دا ٹائمز آف انڈیا کوبتایا کہ انہوں نے 'ایسا پہلے نہیں دیکھا۔'انہوں نے مزید کہا: 'افادیت کے حوالے سے قطعی طور پر ایسا ڈیٹا نہیں جو پیش یا شائع کیا گیا ہو۔'
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی)جو ملک میں آکسفورڈ۔ آسٹرازنیکا ویکسن تیار کر رہا ہے اس نے بھی بھارت بائیوٹیک کی ویکسین پر تنقید کی ہے۔
ایس آئی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ادرپوناوالا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: 'جب تک ہمیں ویکسین کی افادیت سے متعلق ڈیٹا نہیں ملتا ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کام کرتی ہے؟'
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے لکھا : 'کوویکسن کی منظوری وقت سے پہلے دی گئی اور یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ تمام ٹرائلز مکمل ہونے تک اسے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔اس دوران بھارت میں آسٹرازنیکا ویکسین کا استعمال شروع کیا جا سکتا ہے۔'
وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے انہیں یہ کہتے ہوئے جواب دیا: 'ایسے اہم مسئلے کو سیاسی رنگ دینا کسی کے لیے بھی شرمناک ہے۔'
وزیر صحت نے بھارتی شہریوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ان 'سخت قواعد' پر بھروسہ کریں جن پر دو اقسام کی ویکسین کی منظوری کے لیے عمل کیا گیا ہے۔ لیکن بھارت بائیوٹیک اورنہ ہی بھارتی حکام نے ویکسین کی افادیت کے حوالے سے نتائج کے بارے میں بتایا ہے۔ روئٹرز نے ذرائع کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ دو خوراکوں سے ویکسین کی افادیت 60 فیصد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
بھارت بائیوٹیک نے امریکی مارکیٹ کے لیے مل کر ویکسین بنانے کی خاطر دواتیار کرنے والی کمپنی اوکیوجن آئی این سی کے ساتھ بھی شراکت قائم کی ہے اوربرازیل نے ویکسین کی خریداری کے لیے اس کے ساتھ ابتدائی معاہدے پر دستخط کئے ہیں تاہم اس کے لیے اس کی شرائط پر عمل کرنا لازمی نہیں ہو گا۔
© The Independent