برطانیہ میں اعداد و شمار کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہو چکی ہے جبکہ چیف میڈیکل آفیسر نے انتباہ جاری کیا ہے کہ کووڈ 19 کو روکنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات اگلے موسم سرما تک جاری رہ سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وائرس کی نئی وبائی قسم نے ملک بھر میں کرونا کیسز کی تعداد پچاس میں ایک فرد تک بڑھا دی ہے جبکہ لندن میں یہ شرح 30 میں ایک ہے جس کے بعد ان کے پاس رواں ہفتے نیشنل لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔
برطانیہ کو وقت کی کمی کا سامنا ہے جبکہ وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ویکسین لینے والے تقریباً تیرہ لاکھ افراد جتنی ہی ہو چکی ہے۔
برطانیہ میں وائرس کی نئی قسم پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں اور وزیر اعظم بورس جانسن نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ آنے والے مسافروں کے ٹیسٹ کیے جائیں گے تاکہ وائرس کو دوسرے ممالک سے برطانیہ آنے سے روکا جائے۔
انہوں نے فروری کے وسط تک ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کو ویکسین دینے کے اپنے بیان کا اعادہ کیا تاکہ لاک ڈاؤن میں جلد نرمی لائی جا سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 80 سال سے زائد عمر کے افراد میں سے تقریباً ہر چار میں سے ایک فرد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگلے چند ہفتے مشکل ہو سکتے ہیں اور ہمیں حفاظتی تدابیر پر عمل کرتے رہنا ہو گا۔‘
وزیر اعظم کے ساتھ ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں موجود برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر کرس ویٹی نے تنبیہ کی کہ کیسز میں اضافے کی صورت میں کئی بندشوں کو اگلے سال موسم سرما میں دوبارہ نافذ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وبا صرف ایک ہی بار میں غائب نہیں ہو گی۔
چند گھنٹے قبل ہی کیبینٹ آفیسر مائیکل گوو نے تنبیہ کی تھی کہ لاک ڈاؤن کی بندشیں مارچ تک نافذ رہ سکتی ہیں کیونکہ فروری میں ویکسین لینے والوں کو امیونٹی حاصل کرنے میں کچھ ہفتے درکار ہوں گے۔
ایک اور لاک ڈاون کے نفاذ کے بعد چانسلر رشی سوناک نے ریٹیل، ہوٹلنگ اور پرتفریحی کاروبار کے لیے نو ہزار پاؤنڈز تک کی نئی گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔
بورس جانسن نے یہ اشارہ بھی دیا کہ حکومت طلبہ کی یونیورسٹی کی رہائش کے کرایے دینے کے بارے میں غور کرے گی جو طلبہ ابھی استعمال نہیں کر پا رہے۔
عوام میں بے چینی کم کرنے کے لیے بورس جانس نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کے وزرا سوموار سے کووڈ 19 کے کیسز کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر ویکسین لگائے جانے والے افراد کی تعداد سے بھی آگاہ کریں گے۔
لیکن ان پر لیبر رہنما سر کیر سٹارمر کی جانب سے بھرپور دباؤ ڈالا جا رہا ہے جنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقنی بنائے کے برطانیہ دنیا میں ویکسینیشن پروگرام مکمل کرنے والا پہلا ملک بن سکے۔
قومی ادارہ شماریات (او این ایس) کے مطابق برطانیہ میں کرونا سے متاثر ہونے والے گیارہ لاکھ افراد گھروں میں مقیم ہیں۔
27 دسمبر سے سات جنوری کے درمیان یہ تعداد ملک کی آبادی کے دو فیصد یعنی پچاس میں ایک کے برابر ہے۔ جبکہ 17 سے 23 دسمبر کے درمیان کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد کی یہ تعداد آٹھ لاکھ نو سو رہی جو کہ ستر میں ایک کے برابر تھی۔
ان میں وہ افراد شامل نہیں ہیں جو ہسپتالوں، کیئر ہومز یا دوسرے اداروں میں داخل ہیں جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اصل میں زیادہ ہو سکتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھی لیبارٹری سے تصدیق شدہ روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے کیسز کی تعداد 60916 تک پہنچ چکی ہے جبکہ 28 روز میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں مزید 830 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
پروفیسر ویٹی نے تنبیہ کی کہ عوام کو لاحق رسک ’بہت زیادہ‘ ہے اگر وہ حکومت کے گھر پر رہنے کے پیغام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
انہوں نے پیش گوئی کہ یہ خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جائے گا جبکہ بندشوں کو ’مرحلہ وار ختم کیا جائے گا جو کہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف شرح سے ختم کیا گیا جائے گا۔ ان کے مطابق ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔‘
© The Independent