’بچپن میں میری امی مجھے کہا کرتی تھیں کہ کبھی کسی اور لڑکی کو ایسا کام کرتے دیکھا ہے جو تم کر رہی ہو؟ آج میں کہتی ہوں کہ میں وہ لڑکی بن گئی ہوں جس کے بارے میں لڑکیاں اپنے والدین کو کہہ سکتی ہیں کہ فاطمہ بھی تو ہے، وہ بھی تو یہ کام کر رہی ہے۔‘
یہ کہنا تھا فاطمہ ناصر کا، جن کا تعارف کسی ایک خوبی کی وجہ سے نہیں کروایا جا سکتا کیونکہ یہ اپنی 25 سالہ زندگی میں وہ سب کچھ کر چکی ہیں جو شاید ایک عام آدمی کو کرنے میں پوری زندگی لگے۔
لاہور کی فاطمہ ایک فوجی کی بیٹی ہیں اور انہوں نے کوہ پیمائی کا دوسرا لیول پاس کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی لڑکی ہیں جنہوں نے یہ لیول پاس کیا۔ وہ ہنزہ کے ہوپر گلیشیئر پر چڑھیں اور دونوں درجات کو پاس کیا۔
وہ بتاتی ہیں: ’لیول ون میں آپ کو کوہ پیمائی کے آلات وغیرہ سے متعارف کروایا جاتا ہے لیکن لیول ٹو مشکل ہوتا ہے۔ اس میں آپ چڑھنا اور خود کو بچانا وغیرہ سیکھتے ہیں۔ اس کی ایک سٹیج ایسی ہے جس میں آپ کے ہاتھوں میں آئس ایکس ہوتی ہے اور پاؤں میں کانٹوں والے جوتے۔ آپ جوتے برف میں دھنساتے ہیں اور دونوں ایکسسز کے ذریعے خود کو اوپر کھینچتے ہیں۔‘
فاطمہ کے خیال میں کوہ پیمائی ایک طرز زندگی ہے، ایسا نہیں کہ آپ اسے سیکھیں، کھیلیں اور پھر چھوڑ دیں۔ آپ ایک بار اس کا تجربہ کرلیں تو پھر کا اس سے باہر نکلنا مشکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ راکا پوشی کے بعد ہوپر گلیشیئر ان کا بڑا تجربہ تھا۔ ’مجھے ڈر نہیں لگتا۔ یہ لفظ میری زندگی میں نہیں۔ ہاں جب ہم گلیشیئر پر چڑھ رہے تھے تو تب ایک وقت ایسا آیا جہاں ہلکا سا خوف محسوس ہوا کہ کہیں گر نہ جاؤں مگر مجھے سکھانے والے ٹرینر زاہد نے وہ ڈر میرے اندر سے نکال دیا۔ ڈر آپ کے دماغ میں ہوتا ہے۔ اگر میں ڈروں گی تو جن بچوں کو میں تیراکی سکھاتی ہوں ان کا ڈر کون نکالے گا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فاطمہ کوہ پیمائی کے علاوہ میوزک بجاتی ہیں، جہاز اڑاتی ہیں، سکوبا ڈائیونگ، مصوری، گھڑ سواری، کھالوں پر خطاطی، تائیکوانڈو، سائیکلنگ، پرفارمنگ آرٹس، تیراکی اور نیزہ بازی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پولو بھی کھیلتی ہیں، چیف بھی ہیں اور میک اپ آرٹسٹ بھی اور ساتھ ساتھ فیزیو تھراپسٹ بھی بن رہی ہیں۔۔
ان کا کہنا تھا: ’پاکستان میں بہت کچھ ہے۔ لوگ سیر کرنے بیرون ملک جاتے ہیں مگر میرے خیال میں ہمارے اپنے ملک میں اتنا کچھ ہے کہ آپ کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اپنے ملک سے بے انتہا محبت ہے، ہاں کچھ چیزیں خراب ہیں، یہاں حکومت تھوڑی ڈھیلی ہے، لوگ تھوڑے پرانے خیالات کے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ گھر میں کچھ مسائل ہوں تو آپ گھر کے اندر رہ کر انہیں سلجھاتے ہیں نہ کہ گھر ہی چھوڑ کر چلے جائیں۔‘
انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں میں اعتماد پیدا کریں اور کہا کہ بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کے اعتماد پر پورا اتریں۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کی زندگی میں بہت سی رکاوٹیں ہوتی ہیں جیسے والدین کی اجازت، معاشرہ، شادی شدہ ہوں تو سسرال اور شوہر کی مرضی یا پھر پیسوں کا مسئلہ۔
’مجھے اپنی زندگی میں لاکس نظر نہیں آتے، ناممکن کا لفظ میری زندگی میں نہیں۔ رکاوٹیں مجھے دکھائی نہیں دیتی، اگر کوئی رکاوٹ آ بھی جائے جیسے کہ میرے پاس پیسے نہیں تو میں اس رکاوٹ کو ہٹانے کا راستہ ڈھونڈتی ہوں۔ میں اپنا آرٹ کا کام بیچتی ہوں، محنت کرتی ہوں اور یوں اپنے پیسوں کی رکاوٹ ختم کر لیتی ہوں۔‘
فاطمہ جہاں اتنا کچھ کرتی ہیں وہیں انہیں نوادراد جمع کرنے کا بھی شوق ہے۔ ان کے کمرے میں جائیں تو ہر طرف کچھ نہ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے تمام میڈلز اور سرٹیفکیٹس کے درمیان پرانے زمانے کے کیمرے، ٹی وی، ریڈیو، سلائی مشین دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی پرانے زمانے میں چلے گئے ہوں۔
اس کے علاوہ وہ حشرات، جانور، پھول پتے وغیرہ بھی حنود کرتی ہیں۔ ان کے پاس ایک پالتو سانپ بھی ہے۔