سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے کینو بمقابلہ کینو چل رہا ہے۔ کسی نے گھر بیٹھے کینو پر تجربہ کیا اور اس کے نتائج سوشل میڈیا پر ڈال دیے۔ اس کا مقصد عورتوں کو شرم دلانا تھا کہ وہ کینو سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ کینو بھی اپنا چھلکا اتار دے تو اس کی قدر کم ہو جاتی ہے، یہ تو پھر عورت ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے ہم نے آج تک کسی کینو کو اپنا چھلکا خود اتارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب بھی دیکھا اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں ہی ننگا پنگا ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد بھی ہم نے اس کے ساتھ بہت کچھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے پر چلیں سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس کینو کاچھلکا بھی ویسے ہی اترا یا اس نے خود اتارا، اور اس کے بعد کینو کے ساتھ کیا کیا ہوا، یہ راز تو ہمارے سائنس دان بھائی ہی فاش کر سکتے ہیں۔ ہماری جان کو تو اس وقت سو اور پریشانیاں کھا رہی ہیں۔
سائنس دان بھائی نے تجربہ تو کر لیا۔ ہم نے ان کا تجربہ اور اس کے پیچھے چھپا مقصد بھی سمجھ لیا پر اب اس کینو کا کیا کریں جو ہم پرسوں بازار سے خرید کر لائے ہیں۔ امی کہتی ہیں پھل کھاؤ، جان بناؤ۔ ہم نے سوچا امی کی بات مان لیں، خوش ہو جائیں گی۔ بازار گئے اور کینو خرید لائے۔ کچھ تو اسی دن کھا لیے۔ کچھ کی باری اگلے روز یعنی کل آئی۔ ایک کینو بچ گیا تھا جو اب بھی ٹوکری میں پڑا ہوا ہے۔ ہم اسے بھی کھا چکے ہوتے اگر اس سے پہلے یہ پوسٹ نہ دیکھی ہوتی۔
Remember without hijab a girl will always sink. pic.twitter.com/mGQLlVWTKk
— Mysterious Girl (@Witch_Queeen) January 15, 2021
ہم اب خود میں اسے کھانے کا حوصلہ نہیں پاتے۔ سوچا تھا اس کینو کو آج کھائیں گے۔ اب اس کو پکڑنے کا سوچ کر ہی شرم آ رہی ہے۔ اس کا چھلکا اتارنا اور پھر اسے کھانا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم اسے پھینک بھی نہیں سکتے کہ اس سے ہماری قوم کا نام خراب ہو گا۔ بھلا ہمارے ہاں عورتوں کے ساتھ ایسے سلوک ہوتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے اپنی تیس سالہ زندگی میں سینکڑوں کینو کھائے ہیں پر کبھی ان کے بارے میں اس طرح سے نہیں سوچا جیسے اس کینو کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ اپنا آپ ایک ظالم کا سا لگنے لگتا ہے۔ ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ پتہ نہیں اس کی عمر کیا ہے۔ ہم کہیں اسے کھا کر اپنے اوپر پیڈوفائل کا ٹھپہ ہی نہ لگوا لیں۔ پھر سوچ آتی ہے کہ پھل پوری طرح پکنے کے بعد ہی درخت سے توڑا جاتا ہے یعنی یہ کینو بالغ تو ہے پر کیا سنگل بھی ہے؟ اور اگر سنگل ہے تو کیا منگل کرنے کے لیے تیار ہے؟ اگر یہ کسی کے نکاح میں ہوا تو؟ دکھنے میں تو ہماری طرح اکیلا ہی لگتا ہے۔ ہمیں پھر بھی اس کی اجازت درکار ہے۔
A fruit doesn't speak, express, feel or dream but humans do. Wear whatever you want but do yourself a favour and stop drawing analogies of your gender with inanimate objects. https://t.co/LXpOFkjUZM
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) January 15, 2021
آج کل اجازت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اجازت نہ لو تو کیس بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم اپنی طرف سے پوری احتیاط کر رہے ہیں۔ کینو سے اجازت لے تو لیں پر کیسے؟ ہم تو پوچھ پوچھ تھک گئے پر وہ ہے کہ بولتا ہی نہیں۔ خاموشی کو ہاں سمجھا جا سکتا ہے؟ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ ہم کیا سوچ رہے ہیں۔
Ah yes, to be a fruit in a glass of water and not a human being https://t.co/s8bmq8meip
— sai (@Saisailu97) January 16, 2021
ہم رہتے بھی چین میں ہیں۔ ہمارے تجربے کے مطابق چین میں ہر تازہ شے سوائے انسانوں کے دو دن بعد گلنا سڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی پیاز، ٹماٹر، لہسن، ادرک اور دیگر سبزیوں اور پھلوں کو پھپھوندی لگتے نہیں دیکھا تھا، چین میں ایسا ہوتے بھی دیکھ لیا۔ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ اس بلاگ کے چھپنے تک اس کینو پر بھی پھپھوندی لگ چکی ہو گی۔ ہم سوچتے ہیں ایسے چھلکے کا کیا فائدہ جو اسے پھپھوندی لگنے سے بھی نہ بچا پائے گا۔
کچھ لوگوں نے یہی تجربہ اپنے گھروں میں بھی دہرایا۔ ان کے نتائج کچھ مختلف آئے ہیں جن کی وضاحت وہ فزکس کے قوانین کے ذریعے کر رہے ہیں۔ ہم ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ یہ بلاگ پہلے ہی بہت لمبا ہو چکا ہے۔ ہم یہ تجربہ نہیں کر سکتے۔ آپ خود بتائیں ہم کیسے اس کینو کو پکڑیں، کیسے اس کے چھلکیں اتاریں اور پھر کیسے اسے پانی کے گلاس میں ڈوبنے کو چھوڑ دیں؟ آخر ہم انسان ہیں۔
ایسا حوصلہ تو صرف ہمارے جوانوں کا ہوتا ہے۔ ادھر ان کے خیالوں میں بہن کا دوپٹہ پھسلتا ہے، ادھر وہ اس کی گردن دبوچ کر اسے نہر میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم میں اتنا حوصلہ نہیں۔ ہم ہار مانتے ہیں۔ ہم تو اس کینو کو ہاتھ تک نہ لگائیں۔ پھر سوچ آتی ہے کہ کہیں گل سڑ گیا تو اس کی لاش تو ہمیں ہی ٹھکانے لگانی ہوگی۔ ہمیں اسے ہاتھ بھی لگانا ہو گا، اس کا یہ والا چھلکا اتار کر اسے غسل بھی دینا ہو گا اور پھر نیا چھلکا پہنا کر دفنانا بھی ہو گا۔ کیا عجیب پریشانی ہے۔
آپ ہی کچھ مدد کریں۔ بتائیں ہم اسے کھائیں یا پھینکیں یا کسی کو دے دیں۔ اف خدایا، کسی کو دے دیں؟ یہ ہم نے کیا لکھ دیا؟ اب ایک اور پریشانی۔