متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ’بٹ سویٹ ہاؤس‘ کے مالک اور پاکستانی کمیونٹی کے ایک ممتاز رکن اور ریسلر اعظم بٹ پاکستان میں انتقال کر گئے۔
’گلف نیوز‘ کے مطابق اعظم بٹ کی عمر 70 سال تھی اور ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔
’گلف نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے اعظم بٹ کے بڑے صاحبزادے 35 سالہ عظیم بٹ نے بتایا کہ ان کے والد کچھ عرصہ قبل ہی بیمار ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا: ’ان کو دل کی تکلیف ہو گئی تھی اور ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا تھا۔ تکلیف کے بعد وہ کچھ دن سے ہسپتال میں داخل تھے اور ڈاکٹر ان کے دل کی دھڑکن کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن منگل کی صبح ساڑھے تین بجے ان کی طبعیت مزید بگڑ گئی اور وہ چل بسے۔‘
ان کے سوگوران میں اہلیہ، چار بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔
الیکٹرا سٹریٹ پر واقع بٹ سویٹ ہاؤس کی مٹھائیاں ابوظہبی میں انتہائی مشہور ہیں۔ اعظم بٹ 1976 میں ایک پیشہ ور ریسلر کی حیثیت سے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت منتقل ہوئے تھے لیکن انہوں نے اصل شہرت اپنے خاندان کی مٹھائیوں سے حاصل کی۔
عظیم نے مزید بتایا: ’میرے دادا اور چچا یہاں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر وزیرآباد میں مٹھائیوں کا کام کرتے تھے۔ میرے والد نے پہلے ابو ظہبی کی ہمدان سٹریٹ پر مٹھائیوں کی چھوٹی سی دکان کھولی جو دیکتھے ہی دیکھتے اپنے لذید ذائقے کی بدولت پورے شہر میں مشہور ہوگئیں۔‘
ان کی مٹھائیاں اتنی مشہور ہوئیں کہ کچھ سال بعد انہیں اپنی دکان کو شہر کی معروف الیکٹرا سٹریٹ پر منتقل پڑا لیکن 2018 میں وہ اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے یہ دکان بند کر کے واپس پاکستان چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی دکان کی بندش بہت سارے پاکستانی اور بھارتی شہریوں کے لیے ایک دھچکہ تھا جو 50 سالوں سے ان کی مٹھائیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ان کے صاحبزادے نے مزید بتایا: ’میرے والد ہمیشہ ہی اپنی دکان پر انتہائی محنت سے کام کرتے تھے اور ہر وقت اپنی مصنوعات کے بہترین معیار کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اور ان کے بھائی آخر تک خود اپنے ہاتھوں سے مٹھائیاں بناتے تھے، لیکن صحت کے خراب ہونے کے باعث انہوں نے یہ کاروبار سمیٹنے کا فیصلہ کیا۔‘
آخری دنوں تک دکان میں جلیبی، گلاب جامن، رس ملائی سمیت کم از کم دو درجن سے زیادہ اقسام کی مٹھائیاں دستیاب تھیں۔ دکان میں روزانہ تقریباً 150 کلوگرام مٹھائیاں فروخت ہوتی تھیں۔
بقول عظیم: ’میرے والد تقریباً 50 سال ابوظہبی میں مقیم رہے اور یہ ان کا دوسرا گھر تھا۔ میں اور میرے بہن بھائی بھی یہیں پیدا ہوئے تھے، لیکن چند سال قبل جب وہ بیمار ہوئے تو وہ بہت تھکاوٹ محسوس کرنے لگے تو انہوں نے وزیرآباد واپس جانے کا فیصلہ کیا۔‘
بٹ کے تین بیٹے، بشمول عظیم ابوظہبی میں رہتے ہیں جب کہ ایک بیٹا اور بیٹی آسٹریلیا میں مقیم ہے۔
طویل عرصے سے ابوظہبی میں رہنے والے شہریوں نے بتایا کہ ’بٹ سویٹ ہاؤس‘ کے ختم ہونے سے دارالحکومت میں ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔
’گلف نیوز‘ کے ڈسٹربیوشن مینیجر جاوید ملک نے بتایا کہ ان کی اور اعظم کی دوستی 45 سال سے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اعظم ابو ظہبی میں پاکستانی کمیونٹی کے اہم رکن تھے اور اکثر کھانا بانٹ کر یا خیرات میں لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ ’ان کی کمی واقعی محسوس ہوگی۔‘